178

’’فسانہ ء روز و شب‘‘ اور دوسری کتب

’’فسانہ ء روز و شب‘‘ ممتاز نقاد اور شاعر صبا اکرام کی خود نوشت ہے جنھوں نے امریکا میں رہتے ہوئے فرصت کے دنوں میں لکھا جب کہ دوسری کتب سید انور ظہیر رہبر اور عشرت معین سیما کی ہیں جو جرمنی، برلن میں رہائش پذیر ہیں اور بھی کئی علمی و ادبی کتابیں ہیں جو میری نگاہوں کے حصار میں ہیں۔ صبا اکرام کی خودنوشت پڑھتے ہوئے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ گویا معلومات سے پُر ناول میرے مطالعے میں ہے۔

مصنف نے امریکا بہار، بنگلہ دیش اور سقوط ڈھاکا کا ذکر اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو اس طرح بیان کیا ہے کہ جیسے سسکیوں اور چیخوں کو صبر شکر اور بلند ہمتی کے ساتھ تحریر کے قالب میں ڈھال دیا گیا ہو۔ دہری ہجرت کا کرب اور قید و بند کی صعوبتوں نے ان کی شاعری اور نثرنگاری کو لہو رنگ کردیا ہے۔

دشت احساس میں ہم اتنے اکیلے کب تھے
دکھ تو پہلے بھی تھے پر اتنے گھنیرے کب تھے

ہم تو نکلے تھے ہواؤں کا مقدر لے کر
ہم کسی موڑ پر دم لینے کو ٹھہرے کب تھے

جاگتے بیت گئیں دشت میں صدیاں کتنی
یہ بھی اب یاد نہیں ہم کو کہ سوئے کب تھے

مذکورہ کتاب میں اے خیام کا ایک وقیع مضمون بھی صبا اکرام کے حوالے سے بہت سی معلومات کے در وا کرتا ہے۔ خیام بھائی کا انتقال بھی آناً فاناً ہوا۔ ابھی اطلاع ملی کہ وہ سخت بیمار ہیں اور چند روز بعد ہی اپنے رب سے جا ملے۔ ان کی یاد میں ممتاز نثرنگار زاہد رشید نے ایک کتاب مرتب کی جس کا عنوان ’’ابلاغ ادب باقیات خیام‘‘ ہے۔

کتاب میں ان کے اہل خانہ کے تاثرات درج ہونے کے ساتھ ساتھ اے خیام کے غیر مطبوعہ مضامین، افسانے، ڈرامے اور شاعری کو یکجا کرکے کتاب کی شکل دے دی ہے۔ یہ کتاب مجھے حال ہی میں موصول ہوئی ہے۔ اس لیے موقع کی مناسبت سے اس کا تذکرہ کرنا بھی ناگزیر تھا۔

’’فسانہ ء روز و شب‘‘ پڑھتے ہوئے اس بات کا اندازہ قاری کو بخوبی ہو جاتا ہے کہ وہ بہت باہمت ہیں، مشکلات سے ذرہ برابر نہیں گھبراتے بلکہ بڑے حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کا بائی پاس بھی ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر نے تو معائنے کے بعد آیندہ ماہ کی تاریخ دی تھی لیکن آپ نے بہادری کی مثال قائم کردی، ذرہ برابر نہیں گھبرائے اور اسی وقت آپریشن کا تقاضا کردیا۔

ڈاکٹر نے ان کی فرمائش کو رد نہیں کیا اور آپریشن کردیا جوکہ ماشا اللہ کامیاب ہوا۔ صبا اکرام کی زندگی میں قدم قدم پر آزمائشوں اور مشکلات نے ان کا استقبال کیا بچپن میں والدہ اللہ کو پیاری ہوگئیں، والدنے دوسری شادی کرلی۔ دوسری ماں بھی سگی ماں کا نعم البدل ثابت ہوئیں، جوان کی خوش قسمتی تھی۔

بقول شمس الرحمن فاروقی انھوں نے دو ہجرتوں کا المیہ جھیلا ہے۔ شاعری کے بارے میں کہا کہ وہ نظم اور غزل دونوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ صبا اکرام کی شاعری میں یاسیت اور محرومی کی تصویریں نمایاں ہیں۔ دو سال تک جنگی قیدی کی حیثیت سے کیمپ میں بسر کی۔

16 دسمبر 1971 کے سیاہ دن کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ اس بدقسمت دن انہدام ڈھاکا کے بعد سب کچھ بکھر گیا تھا۔ جب انڈیا کی فوج ’’ٹونگی‘‘ میں داخل ہوئی تو انھوں نے اس علاقے سے نکلنے کے بعد جان بچانے کے لیے کئی جگہ ٹھکانہ تلاش کیا۔ اس شعر میں ان پر پڑنے والی ناگہانی آفات کی کیفیت در آئی ہے:

نہ در قفس کا کھلا اور نہ تیلیاں ٹوٹیں
گزر گیا یوں ہی اکرام سَن بہتر بھی

مصنف نے اپنے گھر میں ہونے والی ادبی نشستوں کا ذکر بہت محبت کے ساتھ کیا ہے ۔ ہندوستان سے آنیوالے مہمان اور ان کی خاطر مدارت خصوصاً ویجیٹیرین ڈشوں کا تذکرہ بھابھی کے حوالے سے آیا ہے کہ انھوں نے بہت مزے مزے کے کھانے بنائے، جوگندرپال ان کی بیگم کرشنا جی کی راقم السطور سے اور دوسرے حاضرین سے ملاقات کروائی۔ جوگندر پال نے ہمیں اپنی کتابیں مرحمت فرمائیں اور ڈاک سے بھی بھیجیں۔

صبااکرام کی پہلی نظم کی اشاعت ماہنامہ ’’شاعر‘‘ (بمبئی) میں ہوئی تھی۔ صبا اکرام عرصہ دراز سے بیمار ہیں غالباً ہر ماہ ایک انجکشن لگتا ہے۔ فسانہ ء روز و شب میں مصنف کے حالات زندگی پر بھرپور معلومات ملتی ہیں۔ جہد مسلسل محنت اور لگن کی بدولت انھوں نے اردو ادب کی خدمت کی اور گھر کی ذمے داریاں اور دفتری امور بھی احسن طریقے سے انجام دیے وہ ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہے۔ میری دعا ہے کہ وہ مزید کتابیں لکھیں تاکہ سکون قلب انھیں ہمیشہ میسر رہے۔

14 مارچ 2022 کو شاعرہ اور افسانہ نگار عشرت معین سیما اور ان کے شوہر نامدار جو خود بھی بہت اچھے افسانہ نگار ہیں انور ظہیر رہبر ، ان دونوں کے اعزاز میں ممتاز صحافی، افسانہ نگار اور شاعر زیب اذکار حسین نے ایک نشست ترتیب دی تھی، اسی موقع پر انھوں نے اپنی کتابیں دی تھیں۔ انور ظہیر رہبر کی کتابوں کے عنوانات ’’عکسِ آواز‘‘ دوسری ’’رنگ برگ‘‘ میرے مطالعے میں رہیں۔

’’رنگ برگ‘‘ میں جرمنی کے افسانہ نگاروں کے قابل ذکر افسانے شامل ہیں۔عشرت معین سیما کا شعری مجموعہ ’’آئینہ مشکل میں ہے‘‘ ملا نصیر الدین، ملک ملک کی کہانیاں، جس کا سرورق ان کی صاحبزادی مایا ظہیر نے بنایا ہے۔ عشرت معین سیما اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت شاعرہ اور افسانہ نگار ہیں ان کے افسانوں کے دو مجموعے گرداب اور کنارے اور دیوار ہجر کے سائے، شایع ہو چکے ہیں۔

ان کا افسانہ ’’دیوار ہجر کے سائے‘‘ اپنی بنت اسلوب بیان اور کردار نگاری و منظر کشی کے اعتبار سے ایک شاہکار افسانہ ہے۔ اس کا انجام بھی قابل تعریف اور استعجاب کی کیفیت کو نمایاں کرتا ہے۔ ’’آئینہ مشکل میں ہے‘‘ مجموعے میں شامل نظمیں، غزلیں اور قطعات دل کو چھوتے ہیں۔ غزل کا ایک شعر، مطلع ہے:

نہ جانے ابر تھا مہتاب تھا، ستارہ تھا
کسی نے رات مجھے دیر تک پکارا تھا

سید انور ظہیر رہبر بہترین لکھاریوں کی صف میں شامل ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’عکس آواز‘‘ میں اٹھارہ افسانے شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افسانے جرمنی کے ماحول اور رسم و رواج کے عکاس ہیں۔ ان افسانوں کی خوبی تہ در تہ بیانیہ ہے قاری ان کہانیوں کے طلسم کا اسیر ہو جاتا ہے۔

ان کی کہانیاں سوچنے اور غور و فکر کرنے کی راہ ہموار کرتی ہیں، کتاب میں شامل پہلا ہی افسانہ ’’بے کفن محبت‘‘ اپنے عنوان اور بیانیے کے اعتبار سے ایک ایسا افسانہ ہے جس میں خوف اور تجسس ایک ساتھ چلتے ہیں، یہ وہ تجربہ گاہ ہے جہاں17 لاشیں رکھی ہیں، میڈیکل کے طالب علموں کو ان پر تجربات کرنے ہیں لیکن احترام کے ساتھ اس بات کی پروفیسر نے بار بار تاکید کی تھی، افسانے کا کلیدی کردار ایک طالبعلم ہے۔

پروفیسر کے حکم کیمطابق طالبعلموں کو جین کی لاش سے ابتدا کرنی تھی کہ مردہ جسم پر کٹ لگانا تھا، اس کے لیے یہ نہایت مشکل مرحلہ تھا، اس کے پوچھنے پر پروفیسر نے بتایا تھا جین اور دو چار لوگوں کی لاشیں لاوارث ہیں جین کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا، اس کی اجازت کے بغیر جین کی لاش طب کے لیے استعمال کی جا رہی تھی، وہ واحد شخص تھا جس نے ایسا کرنے کے لیے صاف انکار کردیا تھا، جین کی عمر30 ، 35 سال کے قریب رہی ہوگی۔

حیرت اور خوف کی چادر اس وقت دراز ہو جاتی ہے جب جین ہر روز اس کے خواب میں آنے لگی۔ وہ بار بار اس بات کا تقاضا کر رہی تھی کہ میرے جسم کو روح کی ضرورت ہے اگر تم چیر پھاڑ ڈالو گے تو پھر میری بھٹکتی روح کہاں جائے گی؟ اس احساس نے اس کی ذہنی اذیت کو بڑھا دیا، لہٰذا اس سے نجات کا ایک ہی راستہ تھا کہ اس کی تدفین کردی جائے، تدفین کے بعد گویا جین کی روح کو قرار آگیا اور پھر وہ اس کے خواب میں کبھی نہیں آئی۔

انور ظہیر کے کئی افسانے میرے مطالعے میں رہے، آوازیں، لورز بوائے، مذکورہ افسانہ مغربی معاشرے کی ایک ایسی کہانی ہے جس میں عورت کی بے بسی اور مظلومیت کو مصنف نے فنی باریکیوں کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ ان کے افسانوں کا قاری بے مزہ نہیں ہوتا ہے۔

بشکریہ ایکسپرس