118

آزادی کی قدر کریں

آخر ہم کب تک دنیا کو اپنے اوپر ہنسنے اور مذاق اڑانے کا موقع فراہم کرتے رہیں گے۔ ہم جمہوری لوگ تو ہیں مگر خود ہی جمہوریت پر حملے کرتے رہتے ہیں اور بعض اوقات تو خود ہی جمہوریت کی بساط الٹانے میں مددگار بن جاتے ہیں۔

اب تو حالات یہ ہیں کہ ہم نے ملک کے اہم اداروں پر بھی حملے شروع کر دیے ہیں تو پھر ایسی قوم پر کیوں نہ دوسرے ہنسیں گے۔

پہلے یہ ہوتا رہا کہ ہمارے سیاستدان خود اپنے آپس کے لڑائی جھگڑوں سے مشتعل ہوکر اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے رہے ہیں جس سے ملک سنبھل جاتا تھا اور عوام کو سکون مل جاتا تھا حالانکہ ملک کا نظم و نسق چلانا سیاستدانوں کا کام ہے مگر ان کی نااہلی کی وجہ سے ملک کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو آگے آنا پڑتا تھا۔ اب تو وہ وقت آگیا ہے کہ ملک میں مارشل لا لگنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔

ادھر سیاستدانوں نے اس وقت اقتدار کی جنگ سے ملک کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ملک عدم استحکام کا شکار ہوگیا ہے۔ معیشت تباہ ہو چکی ہے، عوام پریشان ہیں ملک کی ترقی رک گئی ہے۔

روزافزوں مہنگائی نے عوام کی کمر ہی نہیں ہمت بھی توڑ دی ہے۔ پہلے تو سیاستدانوں کی باہمی جنگ سے عوام کو بچانے کے لییاسٹیبلشمنٹ مدد کے لیے آ جاتی تھی اور اس کے آنے سے عوام کو دس سے گیارہ سال تک سکون کا سانس لینے کا موقعہ مل جاتا تھا اور اس طرح سیاستدانوں کی ملک میں پھیلائی ہوئی گند سے نجات مل جاتی تھی۔

ملک پھر سے ترقی کی جانب گامزن ہو جاتا تھا۔ لوگوں کو مصنوعی مہنگائی سے بھی نجات مل جاتی تھی کیونکہ بے قابو تاجر بھی راہ راست پر آجاتے تھے ملک میں مستحکم حکومت کے قیام سے بیرونی معاملات بھی سدھر جاتے تھے۔ دوست ممالک بلا کسی تذبذب کے ہماری معاشی مدد کرنے لگتے تھے۔

ملک میں بلدیاتی انتخابات بھی باقاعدگی سے منعقد ہوتے تھے اور عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں بھی بہتری آجاتی تھی۔ ایک طرف عوام کو سیاسی تشدد ، خونی مظاہروں اور دھرنوں سے نجات مل جاتی تو ادھر سیاستدانوں کو بھی جمہوری دور کی تھکن کو دور کرنے کا موقعہ مل جاتا تھا۔

البتہ بعض اپنی دولت کمانے کی ہوس کو پورا کرنے کے لیے غیر سول حکومت سے مفاہمت کرکے حکومت میں شمولیت کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردیتے تھے اور اس میں کامیابی بھی حاصل کرلیتے تھے۔

اسٹیبلشمنٹ بھی سیاستدانوں کو اپنے ساتھ ملانے میں پس و پیش نہیں کرتی تھی کیونکہ اس طرح ان کے ذریعے عوام تک رسائی حاصل ہو جاتی تھی پھر عوام بھی اس سیٹ اپ سے مطمئن ہو کر اسے جمہوری دور سے بہتر خیال کرنے لگتے تھے۔

اب اس وقت ملک میں جمہوری حکومت تو قائم ہے مگر امن و امان سے لے کر معاشی اور سیاسی حالات روز بہ روز بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اب عوام کس سے فریاد کریں۔ اپنی پریشانیوں سے نجات کے لیے کس کا سہارا تلاش کریں۔ اس وقت پورے ملک میں سیاسی افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔

مظاہروں، دھرنوں اور لانگ مارچ نے ملک کو عدم استحکام کا شکار کردیا ہے۔ یہ سیاسی خلفشار ملک کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں ہمارے دشمن بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی نظریں لانگ مارچ اور مظاہروں پر مرکوز ہیں۔

خاص طور پر ملک کے دارالخلافے کی حفاظت کے لیے ہر طرح کی تدبیریں کی جا رہی ہیں کیونکہ لانگ مارچ کا اصل مرکز دارالخلافے کو ہی بنایا جاتا ہے۔ ہر ملک اپنے دارالخلافے کو مصروف اور پرامن رکھنا چاہتا ہے کیونکہ یہ ملک کا چہرہ ہوتا ہے وہاں ملک کے سارے کاروبار حکومت چلتے ہیں۔

وہاں غیر ملکی سفرا بھی قیام کرتے ہیں۔ مختلف امور کی انجام دہی کے لیے باہر سے غیر ملکی وفود بھی آتے رہتے ہیں اگر دارالخلافہ ہی خلفشار کا شکار ہو جائے تو پھر ملک کے اہم امور کی انجام دہی مشکل میں پڑ سکتی ہے۔

اس وقت حزب اختلاف کا لانگ مارچ آہستہ آہستہ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔ اس وقت وہ راستے میں ہے کہا جا رہا ہے کہ وہ چودہ پندرہ دنوں میں اسلام آباد پہنچ جائے گا۔ وزیر آباد میں لانگ مارچ پر حملہ بھی ہو چکا ہے جس میں کئی لوگ زخمی اور ایک کارکن ہلاک بھی ہو چکا ہے۔ زخمیوں میں خود چیئرمین پی ٹی آئی شامل ہیں۔

حملہ آور پکڑا گیا ہے۔ اس نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا ہے کہ اس کا نشانہ صرف عمران خان تھے۔ اس حملے کی ایف آئی آر مشکل سے درج ہوئی ہے۔

اس حملے کی تحقیق سے پہلے ہی تین مبینہ ذمے داروں کے نام دے دیے گئے ہیں جن میں ملک کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور ایک اہم افسر شامل ہیں اور بہ بانگ دہل کہا جا رہا ہے کہ لانگ مارچ اور تحریک اس وقت تک جاری رہے گا جب تک یہ تینوں افراد استعفیٰ نہیں دے دیتے۔ اگر ایسا ہوگیا تو ملک کو کون چلائے گا؟ پھر تو ملک کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

اب تو اسٹیبلشمنٹ سے بھی کوئی آس نہیں لگائی جاسکتی اس لیے کہ وہ تو پہلے ہی سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے سے معذرت کرچکی ہے۔

تاہم یہ بات ضرور توجہ طلب ہے کہ ہمارا دشمن ہماری تاک میں ہے اس کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ پہلے ہی سری نگر میں ایک فوجی تقریب میں اعلان کرچکے ہیں کہ بھارتی فوج کی پیش قدمی گلگت بلتستان کی جانب جاری ہے اور وہ اپنی منزل پر پہنچ کر ہی رہے گی۔ اس لیے کہ گلگت بلتستان بھارت کا حصہ ہے جس پر پاکستان نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔

یعنی چور الٹا کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے مگر افسوس کہ ہمارے سیاستدان دشمن کے اس جارحانہ اقدام کو کامیاب بنانے کے لیے راستہ ہموار کرتے نظر آ رہے ہیں۔

ہم پاکستانیوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ ملک بہت مشکل سے لاکھوں قربانیوں کے بعد وجود میں آیا ہے اگر اسے ہم نے اپنی آپس کی جنگ اور بے وقوفی سے کھو دیا تو پھر قیامت تک دشمن کے غلام بنے رہیں گے لہٰذا حقیقی آزادی یہی ہے جو اس وقت حاصل ہے۔ ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور باہمی چپقلش سے گریز کرنا چاہیے۔

بشکریہ ایکسپرس