130

کٹھن منزل

موجودہ متنازعہ شہباز حکومت (متنازعہ یوں کہ اس کے قیام کے بعد سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ایوان سے باہر سراپا احتجاج ہے اور اپوزیشن بقیہ پارلیمانی سیٹ اَپ سے گھڑی گئی) کے قیام کے ایمی جیٹ بیک گرائونڈ میں ہارس ٹریڈنگ اور بیرونی سازش یا مداخلت کے حکومتی الزامات کی ہائی ڈگری میڈیا کوریج سے تادم ملک میں جو کچھ تشویشناک حال ہو چکا اور ہو رہا ہے، ایٹمی پاکستان کی مظلوم، بے بس ترین اور غیر محفوظ ہوگئی قوم کے لئے تباہ کن اور مسلسل الارمنگ ہے۔ یہ شاخسانہ ہے 2008 سے شروع ہونے والے جمہوری عمل میں ’’منتخب حکومتوں کے قیام کی مدت پورے ہونے‘‘ کے حوالے سے افزا ارتقا کو سبوتاژ کرنے کا جس سے خود ن لیگی بیرونی قیادت اختلاف کر رہی تھی۔ باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو اس کا اصل اور بڑا محرک مولانا صاحب کی وہ بے تابی اور عدم برداشت ہے جو انتخابی نتائج پر ان میں اپنی جماعت کے قدرے کم حجم میں رہنے کے باوجود ایوان میں اپنی نشست سے محرومی سے پیدا ہوئی اور وہ حکومت اکھاڑنے کیلئے سرگرم ہوگئے۔ گزشتہ شام یہ سب مولانا کے عمران خان پر قاتلانہ حملے کے قابل مذمت انداز کا تجزیہ سنتےری کال ہوا،جس میں وہ اپنی ہلکی سی مسکراہٹ بھی چھپا نہ پائے۔ اقبالؔ کا شعر بھی زباں پر آیا، کون سا؟ چلیں چھوڑیں، پہلے ہی ....

قارئین کرام! زیادہ دور کی بات نہیں ناچیز نے اپنی علمی دلچسپی، تجزیے اور بڑی قومی ضرورت کے حوالے سے یکم تا 15 اکتوبر 5اقساط پر مشتمل ’’آئین نو‘‘ کے حوالے سے ’’آئین نو‘‘ کی پانچ اقساط بعنوان ’’نیشنل کمیونیکیشن فرنٹ اور اس کا ڈیزاسٹر‘‘ یکم تا 15 اکتوبر 5 اقساط سپرد قلم کیں۔ یہ میری اپنی دماغ سوزی سے تیار وہ سیریز (کمیونیکیشن پروڈکٹ) ہے جو میں بطور اسٹوڈنٹ آف کمیونیکیشن سائنس، موضوع کے اسٹیک ہولڈرز کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا۔ مقصد ملکی عملی سیاست سے ہٹ کر مکمل قومی اور وقت کی فوری اور انتہائی ضرورت کے حوالے سے تھا جس میں ملکی قومی ابلاغی دھارے میں مہلک آلودگی کی نشاندہی کی جا رہی تھی۔ مزید اس کی اصلاح کے لئے حل مجوزہ منصوبہ بندی اور بنیادی حکمت ہائے عملی کو اسٹیک ہولڈرز کی توجہ، بحث اور اس جانب غور پرمائل کرنا مقصود تھا۔ میں بطور اسٹوڈنٹ آف میڈیااینڈ کمیونیکیشن، OP/ED PAGE(ادارتی صفحے) میں کنٹری بیوٹ کرتے ہوئے ذاتی حوالے سے بات کرنا غیر پیشہ ورانہ اور غیر اخلاقی سمجھتا ہوں۔ ذاتی رائے کا اظہار و تجزیہ تو اس کا خاصہ ہے لیکن اس سے ہٹ کر اپنے ذاتی حوالوں اور زندگی پر بات کی کوئی گنجائش اس صفحے پر نہیں بنتی کہ میڈیا میں آن ایئر ٹائم اور پرنٹ میں جگہ، بڑی قیمت کے ساتھ ساتھ صرف اور صرف سامعین، ناظرین اور قارئین کیلئے وقف ہے، لیکن ہماری قومی سنہری ابلاغی تاریخ سے متصادم اب اس کا اس لحاظ سے بھی بہت غلط استعمال ہو رہا ہے۔ سو، قارئین سے مکمل معذرت ہے کہ آج اس طرف آنا پڑا، لیکن جس موضوع پر میں نے سیریز بعنوان ’’نیشنل کمیونیکیشن فرنٹ اور اس کا ڈیزاسٹر‘‘ شروع کرکے ابھی پانچ اقساط تحریر کرکے سلسلہ روکا، اس لئے کہ اسی نیشنل کمیونیکیشن آلودہ ابلاغی بہائو، جسے ایک ثمر آور فرنٹ میں تشکیل دینا مقصود ہے، نے عملی سیاست کے جھمیلوں میں بدترین سے خطرناک شکل اختیار کرلی۔ اس کی انتہا کٹر پاکستانی سوچ و اپروچ کے کامیاب ترین اور مکمل پیشہ ور صحافی ارشد شریف کی دیار غیر میں شہادت تک پہنچی گئی۔قارئین کرام! معافی کا طلب گار ہوں کہ آج کالم میں ’’میں‘‘ کا غلبہ ناگزیر ہوگیا، ارشد شریف کا قومی غم و الم ختم نہیں ہو رہا تھا کہ عمران خان کے اب تک تحریک انصاف کی جانب سے رہنے والے پرامن لانگ مارچ پر جس انداز اور شدت کا شرانگیز ابلاغ وزارت داخلہ اور اطلاعات کی جانب سے ہوا اور جاری ہے، اور پھر جوابی کم ترین سنسنی خیز، اب جو کچھ ’’اعظم سواتی ویڈیو ایشو‘‘ کے تناظر میں نیشنل کمیونیکیشن فلو کے ملک و معاشرے کی بربادی کا سامان دانستہ بنانے کی نشاندہی نے بندۂ ناچیز کو سخت پریشان اور مضطرب کر دیا ہے کہ خاکسار تو اپنے تئیں، متذکرہ سیریز لکھنے، حالات حاضرہ پر موضوعات کے یومیہ انتخاب کی پیشہ ورانہ ادائیگی کےفرض کو قربان کرکے کئی ماہ کی دماغ سوزی کے بعد آپ سے شیئرنگ کیلئے سیریز کی طرف آیا تھا۔ اس کا گہرا تعلق ملکی سیاسی جماعتوں، معاشرے اور تمام ریاستی اداروں کے حضور ’’استحکام پاکستان اور دفاع پاکستان میں ابلاغ کے کردار‘‘ پر ایک ڈوکومنٹ (سیریز) بحث و تمحیص اور نیشنل ڈائیلاگ کے لئے پیش کرنا تھا اور اب بھی ہے۔ لیکن نیشنل کمیونیکیشن فلو کے خطرناک ہونے سے بریک لگ گئی۔

قارئین کرام! جہاں تک گزشتہ آئین نو بعنوان ’’عمران پر حملہ، نظام بدختم، تابناک پاکستان یقینی‘‘ پر یار دوستوں کے اس فیڈ بیک کا کہ میں اتنے گمبھیر نہیں بلکہ پُرخطر داخلی حالات میں اسٹیٹس کو کے خاتمے اور پاکستان کے تابناک ہونے کا یقین کیسے دلا رہا ہوں؟ سوال تو بہت متعلقہ اور درست ہے، لیکن میرے یقین کی بنیاد میری جذباتی خواہش ہر گز نہیں بلکہ عطائے رب کریم علم ابلاغیات پر ہے، جس میں عمران خان کے ملے جلے (شدت سے مطلوب اور کچھ مکمل غیر مطلوب) سیاسی ابلاغ میں اول الذکر کے غلبے کاہے۔ متذکرہ کالم میں جگہ کی پابندی کے باعث اس کی ضروری وضاحت نہ ہو سکی لیکن خاکسار کے ’’بی ہیویرئیل چینج اور ابلاغ کے تعلق‘‘ سے متعلق حتمی علم نے یہ یقین محکم پیدا کیا کہ جتنی وضاحت اور جس تکرار سے خان نے ’’دو قانونی نظام‘‘ اور اس سے پاکستان کی موجود صورتحال کو جوڑ کر عوام الناس کی بھاری اکثریت خصوصاً نوجوان اور گھریلو خواتین تک کے ذہنوں میں اتار دیاہے، اس سے برپا ہوئی تبدیلی کو روکا ہی نہیں جا سکتا۔ دلچسپ یہ ہے کہ عمران کے درپے سیاسی اور اب تو جان کے دشمن کا ابلاغ ضربیں لگاتا بی ہیویرئیل چینج کو اس درجے پر لے آیا ہے کہ یہ معاملہ اب فقط عمران کی سیاست سے کہیں زیادہ پورے پاکستانی معاشرے اور ریاست کی ناگزیر ضرورت کا بن گیا ہے۔ ریاست عوام کے کنٹرول سے سردست باہر ہے، لیکن یہ نہ بھولا جائے کہ پاکستان میں اب طاقت کا سرچشمہ خلق خدا کے طور پر صرف اور صرف پاکستانی عوام ہیں۔ جس کا سائنٹیفک اظہار وہ بعد از عمران حکومت کے ضمنی انتخابات میں کر رہے اور پہلے سے زیادہ اپنا زور بنا اور دکھا رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام قائد و اقبال کے پاکستان کی اس منزل پر ہیں جس کی نشاندہی مرشد اقبال نے اپنے اس شعر میں کی،

آئینِ نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اَڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

بشکریہ جنگ نیوزکالم