کیا یہ عمران خان کی مقبولیت کو مہمیز دینے کے لیے بوسٹر شاٹ تھا یا انھیں لانگ مارچ اور اسٹبلشمنٹ پر تنقید سے روکنے کے لیے دی گئی وارننگ تھی؟ یا اگر یہ ان دونوں امکانات سے جڑی ہوئی سازش نہیں تھی تو کیا تحریک لبیک پاکستان کے کسی حامی کا انفرادی فعل تھا؟ ہر امکان کی وضاحت میں بہت سے جھول ہیں۔ اس واقعے سے وابستہ جوشیلے جذبات اور بہت بڑے مفادات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ جیوری کسی نتیجے پر بمشکل ہی پہنچ پائے گی۔ جیسا کہ ایسے معاملات میں اکثر ہوتا ہے۔
یہ حقیقت بوسٹر شاٹ اور وارننگ کی تھیوری کو تقویت دیتی ہے کہ عمران خان کی ٹانگ میں گولیاں نہیں بلکہ صرف چار کنکریاں لگی ہیں۔ اگر کوئی واقعی عمران خان کو قتل کرنا چاہتا تو وہ اتنی آسانی سے بچ نہ پاتے۔ ان کے اعتراف کے باوجود کہ ان کے اپنے سکیورٹی ذرائع نے انھیں اس روز ممکنہ حملے سے خبردار کیا تھا، کنٹینر پر ان کے سامنے کوئی بلٹ پروف شیلڈ نہیں تھی، سکیورٹی ماہرین کا حفاظتی حصار بھی ان کے گرد نہیں تھا اور نہ ہی انھوں نے بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔
لیکن اگر بوسٹر تھیوری پر یقین کر لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس سازش میں اسٹبلشمنٹ سمیت ان کے اپنے حامی شامل تھے۔ اگر وارننگ تھیوری پر کان دھرا جائے تو پھر اسے اسٹبلشمنٹ کی طرف منسوب کیا جائے گا جو عمران خان کے مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ دونوں امکانات کے ذیل میں اسٹبلشمنٹ مشترک ہے۔ اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ عمران خان کیوں آئی ایس آئی کے ایک ٹو سٹار جنرل کا نام ایف آئی آر میں شامل کرنے پر مصر ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ پنجاب، چوہدری پرویز الہی جو اسٹبلشمنٹ کے ایک دیرینہ اثاثے رہے ہیں، خان کی خواہش کی تعمیل سے گریزاں ہیں۔ درحقیقت عمران خان اسی جنرل کو ”ڈرٹی ہیری“ کہ نام سے پکارتے رہے ہیں کیوں کہ انھوں نے خان کے حامیوں پر سختی کرتے ہوئے انھیں خوف زدہ کر رکھا ہے۔
اس واقعے کو ایک حملہ آور کے انفرادی فعل سے منسوب کرنا حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے لیے سازگار ہے کیوں کہ اس طرح دونوں ہی بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ اس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں اس مبینہ مذہبی انتہا پسند کو فوراً ویڈیو اعتراف کی سہولت فراہم کی گئی تاکہ وہ بتا سکے کہ اس نے کیوں اور کس طرح خان کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ یہ ماضی کے کچھ واقعات سے مماثلت بھی رکھتا ہے جن میں اہم شخصیات، جیسا کہ سلمان تاثیر، احسن اقبال اور خواجہ آصف کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
کچھ اور شکوک و شبہات بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ان پر سامنے اور کنٹینر کے نیچے سے گولی چلائی گئی۔ گویا قاتل دو تھے جن میں سے ایک نے سامنے کسی بلند مقام سے رائفل سے برسٹ مارا۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو عقل حیران ہے کہ عمران خان اور کنٹینر کی چھت پر موجود دیگر افراد کی کمر سے اوپر زخم کیوں نہ آئے۔ اس صورت میں وہ فوراً جاں بحق ہو جاتے۔ لیکن واحد حملہ آور اس امکان کو مسترد کرتا ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ اس نے آٹھ کے قریب گولیوں کا برسٹ مارا لیکن پھر اس کے پستول میں گولی پھنس گئی۔ زمین سے کنٹینر کی چھت تک گولیوں کا رخ بھی اس بیان وضاحت کرتا ہے کہ کیوں عمران خان کی ٹانگوں پر زخم آئے اور دیگر افراد بھی گولیوں یا کنکریوں سے زخمی ہوئے۔ لیکن اس سے اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ پولیس کو جائے وقوعہ سے گولیوں کے کم از کم گیارہ خول ملے ہیں، تاوقتیکہ یہ پتہ چلا کہ کنٹینر پر سے گارڈ نے حملہ آور پر گولی چلائی جو ایک معصوم شہری کی جان لے گئی جو چار بچوں کا باپ تھا۔
ممکن ہے کہ گرفتار ہونے والے شخص نے اکیلے ہی فائرنگ کی ہو جسے مہمیز دینے یا وارننگ دینے والے عامل نے فاصلے پر رہتے ہوئے استعمال کیا تھا۔ دنیا بھر میں ہونے والے سیاسی ہلاکتوں کا یہ ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ اس کا کوئی سراغ باقی نہیں رہتا۔ ایک سادہ سی وضاحت کو قبول کرتے ہوئے کیس بند کر دیا جاتا ہے۔
اس کیس کے پیچھے جو بھی حقائق ہوں، ممکن ہے سچ کبھی بھی سامنے نہ آ سکے۔ یا آ بھی جائے تو مخالف فریق یقین نہ کریں۔ اشتعال کی اس لہر نے عمران کی مقبولیت بڑھا دی ہے۔ اس کے معجزانہ طور پر بچ جانے کو بھی تائید غیبی سمجھا جا رہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ مخالف صحافی، ارشد شریف کے کینیا میں ہونے والے قتل، جس کی تاحال کوئی وضاحت سامنے نہیں آ سکی، سے لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا۔ اب جان لینے کی اس ناکام کوشش نے عمران خان کی مقبولیت کے سکڑتے ہوئے غبارے میں مزید ہوا بھر دی ہے۔ دونوں واقعات میں ان کے حامیوں نے اسٹبلشمنٹ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
عمران خان اپنے ردعمل میں تیز رفتار اور یکسو ہیں۔ انھوں نے اپنے زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں اسٹبلشمنٹ اور حکومت پر اپنی جان لینے کی سازش کرنے کا الزام لگا دیا۔ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور ایک انٹیلی جنس افسر کا نام لے کر الزام لگاتے ہوئے انھوں نے بیک وقت ”حکومت کی تبدیلی“ اور اسٹبلشمنٹ سے اپنا ”طرزعمل تبدیل کرنے“ کا مطالبہ کر دیا ہے۔
اہم بات البتہ یہ ہے کہ عمران خان ویل چیئر سمیت کنٹینر کی چھت پر چڑھ کر لانگ مارچ نہیں کرنے جا رہے۔ نہ ہی انھوں نے اپنے حامیوں کو حکومت اور اسٹبلشمنٹ پر ٹوٹ پڑنے کی ہدایت کی ہے۔ سڑکوں ان کے چند ایک حامیوں نے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ عمران خان نے تاحال یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ قبل از وقت انتخابات کے لیے دباؤ ڈالنے کے اپنے اس منصوبے کو کب شروع کرنے جا رہے ہیں۔ تو کیا وہ فکرمند ہیں کہ اسلام آباد جانے والی سڑک پر ان کی جان لینے کی کوئی اور بھی کوشش ہو سکتی ہے؟ کیا وہ اسٹبلشمنٹ میں موجود اپنے ہینڈلر کی مزید ہدایت کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا وہ کسی قسم کا بیک چینل حل قبول کرنے کا آپشن اختیار کرنے جا رہے ہیں؟
یہ بات یقینی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی نچلی صفوں میں عمران خان کی خاطرخواہ حمایت موجود ہے۔ لیکن زیادہ تر جنرلوں اور جی ایچ کیو میں کمانڈروں نے ان کا چار سالہ بدعنوان اور خبط زدہ دور حکومت دیکھا ہے۔ نیز وہ عمران خان کے ذاتی اور ادارے پر بے رحمانہ حملوں کا نشانہ بھی بنے ہیں، وہ انھیں واپس اقتدار میں آنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سب اندرونی اور بیرونی اختلافات اور عدم استحکام کا خاتمہ کرنے کے لیے متحد ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت بھی اپنے قدم جما چکی۔ اسے بھی فوری طور پر آسانی سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ اس صورت حال میں موڑ البتہ چوٹی کے جنرلوں کے درمیان ہونے والی جد و جہد کی صورت دکھائی دے رہا ہے۔ انتیس دسمبر کو ہونے والی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اس اہم عہدے کے لیے کوشاں ہیں۔ رخصت ہوتے ہوئے چیف کے اپنے پسندیدہ کی نامزدگی اور حکومت کے اپنے پسند کے افسر کے چناؤ نے اس صورت حال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
آنے والے تین ہفتے بہت اہم ہیں۔ عمران خان اپنے لانگ مارچ پر دو بار کب نکلیں گے؟ اب وہ کتنی طاقت دکھا سکتے ہیں؟ کیا تشدد اور خونریزی کی نوبت آ سکتی ہے؟ کیا جنرل حکومت کا ساتھ دے کر مزید تنقید اور بیگانگی کا خطرہ مول لیں گے؟ اگر وہ عمران خان یا حکومت، دونوں سے گریز کریں گے تو پھر وہ قانون اپنے ہاتھوں میں کیسے لے سکیں گے؟ اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس کے سیاسی اور اقتصادی نتائج کیا ہوں گے؟ یا پھر مثبت طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ، پی ڈی ایم اور تحریک انصاف ریاست اور معاشرے کی خاطر کسی سمجھوتے پر پہنچتے ہوئے نئے سال میں داخل ہوسکتے ہیں؟
جلد ہی یہ سب کچھ ہمارے سامنے آ جائے گا۔ لیکن تب تک کچھ پریشان کن راتیں اور ڈرا دینے والے موڑ ضرور آئیں گے۔