مرد مارچ بمقابلہ عورت مارچ!

"عرفانیات"

محمد امین مگسی صاحب مذہبی سوچ رکھنے والا معروف کالم نگار ، پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کا سینئر ممبر اور میرا نہایت قابل قدر دوست ہے، "عورت مارچ "کے نام پر کچھ لبرل عورتوں نے جو طوفان بد تمیزی برپا کیا ہوا ہے،قانون و مذہب کے دیگر پاسداران کی طرح مگسی صاحب بھی نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس طوفان کا ہمارے کلچر، مذہب اور تہذیب پر مرتب ہونے والے اثرات سے آگاہی کے تناظر میں کافی پریشان نظر آرہا ہے،خواتین کے آزادی کے نام پر لبرزم کا راستہ روکنے کےلئے مگسی صاحب نے "مرد مارچ "کا اعلان کیا ہے جس کے مقاصد کا جہاں تک مجھے اندازہ ہے وہ خواتین کو اپنے حقوق سے روکنا ہر گز نہیں بلکہ "مرد مارچ" کا مقصد یہ ہوگا کہ عورت کو قانون، مذہب اور تہذیب کے تناظر میں کہاں کہاں مسئلہ درپیش ہے تاکہ اس کے فوری حل کےلئے خواتین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر مستقل بنیادوں پر ان سے چھٹکارا مل جائے،تعلیم کی پابندی، وراثت سے محرومی، حق مہر سے محرومی، جہیز کے نام پر خواتین کو معاشی پریشانی میں مبتلا کرنا، پوچھے بغیر رشتوں کے فیصلے کرنا، گھریلو تشدد، نوکریوں کے جگہ یا راستے میں ہراساں ہونا اس طرح کے دیگر مسائل کے روک تھام کےلئے مستقل حل تلاش کرنا ہے۔ اگر "عورت مارچ" کے مقاصد ان مسائل کا روک تھام ہے تو پھر "مرد مارچ" بھی "عورت مارچ' کا دوسرا نام ہوگا لیکن اگر "عورت مارچ" کا مقصدیورپ کاماپدر آزاد تہذیب کو پاکستان جیسے مہذب اسلامی معاشرے پر توپنا ہے تو پھر "مرد مارچ" اس کے خلاف سد سکندری بن کر لبرل آنٹیوں کے بےہودہ ایجنڈہ کو ان کے منہ پر دے مارےگا۔
"مرد مارچ" اس لبرل ایجنڈے کا تدارک ہے جس کے تحت ہمارے مذہبی تشخص اور اقدار کا جنازہ نکالنے کےلئے "عورت مارچ" منایاجاتاہے، 
تیاری دونوں طرف سے ہورہی ہے لیکن یہ تیاری "مرد عورت" کے تصادم کےلئے نہیں بلکہ دو تہذیبوں کے مابین لکیر کھینچنے کےلئے ہورہی ہے، 
ایک درجن کے تعداد میں چند لبرل آنٹیاں اگریورپ کے ایجنڈا ہم پر مسلط کرنےکےلئے بےتاب ہیں تو ہم بھی اسے سبق سکھانے کا ہنر جانتے ہیں، پاکستان ایک مذہبی ملک ہے یہاں کا قانون، تہذیب، کلچر اور معاشرہ "عورت مارچ" کے نام پر بےحیائی ،بدتمیزی اور فحاشی پھیلانے کی اجازت نہیں دے سکتا، اگر ان آنٹیوں کو یہاں کے تہذیب سے نفرت ہے تو وہ یورپ جاکر وہاں "میرا جسم میری مرضی" کے نعرے لگائے۔
 

بشکریہ روزنامہ آج