387

معاشرے میں امن و امان قائم کریں۔۔

آج خلیل الرحمن اور ماروی سرمد کی باتیں سننے کے بعد میں اور کچھ نہیں بس اتنا ضرور کہوں گی۔۔۔

کہ ہمارے رب کا فرمان ہے۔۔

جو برائی کرے گا اس کو اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنی اس نے برائی کی ہوگی اور جو نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو وہ مومن ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔۔

ایک عورت جب میرا جسم میری مرضی کا مطالبہ کرتی ہے تو اس کے جواب میں وہ یہ امید کرتی ہے کہ مجھے سراہا جاۓ تو یہ اس کی سراسر بھول ہے۔۔

میرا سوال ایسے نعرے لگانے والی عورتوں سے ہے کیا تم عورت کی معنی جانتی ہو ؟

اگر عورت کی معنی جانتے ہوئے بھی تم میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگاتی ہو تو تم کیسی عورت ہو ؟؟ 

عورت عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کی معنی سر ڈهانپنا یا پردہ ہے۔۔ اسلام نے عورت کو بلند مقام عطا کیا ہے ہر کردار میں عورت کو بہت عزت بخشی ہے مگر اسلام نے یہ عزت و مرتبہ ان عورتوں کو بخشہ ہے جو پردے کے تقاضے بھی پورے کرتی ہیں۔۔

مگر آج کے دور میں ہم بن سنور کر باہر جاتی ہیں اور کہتی ہیں میرا جسم میری مرضی اور مرد کی بری نگاہ کے شکوے بھی کرتی ہیں جس پر مرد بھی بول پڑتا ہے میری آنکھیں میری مرضی۔۔۔

اس طرح ہمارے معاشرے میں رائٹس نہیں مل پائیں گے ہاں ہمارے معاشرے میں فتنہ ضرور برپا ہوگا۔۔

اور یہ عورت کی بد زبانی مرد کا گالی دینے پر مجبور ہو جانا یہ سب کیا ہے ؟؟

یہ نشانیاں ہیں ہمارے زوال کی۔۔۔۔

جہاں عورت کو ِبلا کسی جواز کے باہر نہیں جانا چاہیے وہاں عورت کو بغیر کسی مجبوری کہ نوکری بھی نہیں کرنی چاہیے مطلب مجبوری کی صورت میں کر سکتی ہے۔۔مگر یہاں عورتیں بغیر کسی مجبوری کہ نوکری کرتی ہیں بِلا ضرورت باہر نکلتی ہیں جسے وہ عورت آزادی کا نام دے رہی ہیں۔۔۔

بیوی، بہنوں ، بیٹیوں مسلمانوں کی ہر عورت سے کہا گیا کہ اگر تم گھروں سے نکلو تو اپنا لباس ٹھیک رکھو اپنے سر ڈھانپ لو بلکہ اپنے اوپر چادر لٹکا دو جسے اندازہ ہو کہ شریف عورتیں جارہی ہیں اور کوئی فاسق حرکت نہ کر سکے۔۔

مگر ہم نادان یہ سوچ رکھتے ہیں کے بیٹیوں کو یہ بتانا چاہیے کہ تم ہوش سنبھالو تو میرا جسم میری مرضی کا مطالبہ کرو جب بیٹیاں یہ مطالبہ کریں گی جب باہر نکل کر (لو ایسے بیٹھ گئی ) جیسے بینرز اٹھا کہ کھڑی ہونگی تو معاشرہ کیسے بہتری کا رخ کرے گا ؟؟

جہاں معاشرے میں اتنی برائیاں جنم لے چکی ہیں وہاں عورت مارچ پر فضول قسم کہ بینرز اٹھا کر وقت ضائع کرنے سے بہتر راستہ یہ کہ ہم اپنی بچیوں کو راہِ راست پر لائیں۔۔ہمیں انھیں سمجھانا ہے انھیں اچھے برے کی پہچان کروانی ہے۔۔

ایک ماں کی گود ہی وہ مقام ہے جہاں معاشرے کے افراد تیار ہوتے ہیں ایک ماں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت ، تعلیم پر کوئی کثر نہ چھوڑے اسے شعور دے معاشرے کو ایسی نسل دے جسے معاشرہ بہتری کی طرف جاۓ۔۔

مگر افسوس تعلیم تو مل گئی شعور سے ہم آج بھی محروم ہیں جس کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔۔

کہنے کو تو سب انسان مگر وہ انسان اگر انسانیت سے ہی محروم ہو تو ایسے انسان کا وجود کس کام کا۔۔

لہٰذا اپنے بچوں اپنی بچیوں کو تعلیم دو شعور دو تربیت کرو ان کی ایسی تربیت کے معاشرے کا ہر فرد تمہیں دعائیں دے۔۔۔

ہمیں ضرورت ہے ایسی نسل کی جسے ہم معاشرے میں امان و امان قائم کر سکیں اور یہ زمہ داری ہم سب کی ہے۔۔

آئیں اپنی ذمہ داری نبھائیں

اور معاشرے میں امن و امان پائیں۔

بشکریہ اردو کالمز