97

غلامی سے سلطانی تک

قدرت کے صندوقوں میں طرح طرح کے معجزے اور کرشمے اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہونے کے منتظر رہتے ہیں۔ فقیر کو بادشاہ اور بادشاہ کو گداگر بنانا بھی ایک بڑی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس سے کوشش، اُمید اور حوصلے کا دیا روشن رہتا ہے۔ برصغیر میں خاندانِ غلاماں کی بادشاہت کے بارے میں سب نے پڑھا ہو گا۔ ہم عموماً غلام خاندانوں کی عقیدت اور جانثاری سے بھری کہانیوں کے عادی ہیں۔ ان کی حکومت کا تذکرہ کم کم ہی تاریخ کے صفحات کی رونق بنتا ہے۔ خاندانِ غلاماں ایک ایسے حکومتی سلسلے کا نام ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سلطانی صرف امرا کے مخصوص طبقات اور سیاسی مجاہدوں تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ لوگ بھی مسند افروز ہو جاتے ہیں جنہیں وقت غلامی کا طوق پہنا چکا ہوتا ہے۔

قدرت جب کسی فرد کی تقدیر میں کسی خاص علاقے کی بادشاہی کی مہر لگا دیتی ہے تو پھر اس کے اسباب بھی مہیا کرتی ہے۔ زمانہ انگلی پکڑ کر وسیلوں کی سیڑھیاں عبور کراتا ہوا منزل تک پہنچاتا اور تاج پوشی کرتا ہے۔ ایک ترک النسل بچہ زمانے کے سوداگروں کے ہاتھوں فروخت ہوتا ہوا ایک دن امام ابو حنیفہؒ کی اولاد میں سے ایک صالح بزرگ، جو نیشاپور کے حکمران تھے، تک پہنچا۔

قاضی فخر الدین عبد العزیز کوفی کو ان کے علم و دانش کے باعث امام ابو حنیفہ ثانی کہا جاتا تھا اور معاشرے میں ان کی بہت تعظیم کی جاتی تھی۔ یہاں ترک بچے کو قاضی فخرالدین کے بچوں کے ہمراہ اعلیٰ تعلیم کا موقع بھی میسر ہوا اور جنگی مہارتوں کی تربیت کا بھی۔ یہ ترک بچہ قطب الدین تھا جو ہاتھ کی ایک ٹوٹی ہوئی انگلی کی وجہ سے ایبک کہلایا اور پھر یہ اس کے نام کا حصہ بن گیا۔ گھڑ سواری اور تیر اندازی میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر ایسا مشہور ہوا کہ بادشاہِ وقت شہاب الدین غوری کے دربار لے جایا گیا جہاں اس کی اعلیٰ صلاحیتوں کی بڑی قیمت ادا کر کے سلطان نے اسے اپنے درباریوں میں شامل کر لیا۔

جشنِ فتح کی ایک شام تمام درباریوں پر سونے چاندی کے انعامات کی بارش ہوئی۔ محفل برخاست ہونے پر قطب الدین ایبک نے وہ تمام سکے اور ظروف غربا اور غلاموں میں تقسیم کر دئیے۔ اس عمل نے اسے امرا میں بھی شامل کروایا اور سلطان کے دل میں بھی خاص رتبہ دلوایا۔ وہ سلطان کی طرف سے سونپے گئے تمام معرکے سر کر کے معتبر ہوتا رہا حتیٰ کہ اجمیر کی فتح کے بعد وہاں کا سپہ سالار مقرر ہوا۔ اس دوران اجمیر کے بہترین نظم و نسق کے ساتھ ساتھ اس نے کئی اہم علاقے بھی فتح کر لئے لیکن کبھی سرکشی کا خیال نہ آیا۔ ہمیشہ خود کو غلام کہلوایا اور اپنی ذمہ داری کو بہتر پرطور نبھانے کو مقصد بنایا۔ شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد نئے سلطان غیاث الدین نے قطب الدین سے محبت کا سلسلہ مزید گہرا کرتے ہوئے اسے سلطان کا لقب عطا کیا۔ پھر وقت نے وہ منظر دیکھا جب ایک غلام لاہور میں تخت نشین ہوا اور ہندوستان کی سیاست میں ایک تابناک دور کا آغاز ہوا۔

فطرتاً صوفیانہ مزاج رکھنے والا سلطان قطب الدین مساواتِ انسانی کا قائل تھا۔ سخی، متقی اور منصف مزاج کا حامل تھا۔ اس کے لشکر میں مختلف نسلوں اور طبقات کے افراد شامل تھے۔ اس کے دور میں اس کے ماتحت علاقوں میں ہر طرف مثالی عدل و انصاف کا عالم تھا۔ اس نے عام انسان کی اخلاقی اور سماجی زندگی بہتر بنانے کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے ملک میں ہم آہنگی اور رواداری کی وہ فضا قائم کی جس کی مثال دی جا سکتی ہے۔ عوام سے جبری وصول کئے جانے والے کئی طرح کے ٹیکس ختم کر کے صرف عشر لینے کا فرمان جاری کیا تو خلقت اس کی گرویدہ ہو گئی۔

جہاں قدرت نے اس کی سلطانی کی راہیں ہموار کرنے کے لئے اسے بادشاہوں کا محبوب بنا دیا وہیں اس کی روحانی تشفی کے لئے خواجہ معین الدین چشتیؒ جیسی ہستی کی صحبت تک رسائی دی جن کی قربت نے سلطان کے وجود میں خیر کے سرچشموں کو متحرک کر کے اُسے وسیع تر مقصد سے جوڑا۔ یہ وہ سنہری دور تھا جب سلطان قطب الدین ایبک نے ایک مہربان اور مدبر حکمران کے طور پر ظاہری جب کہ خواجہ معین الدین چشتیؒ نے ایک ولی کی حیثیت سے برصغیر کے لوگوں کی باطنی رہنمائی کی۔ اس انسانیت نواز حکمران کے دربار تک ہر خاص و عام کو رسائی حاصل تھی۔ اسے اجمیر شریف سے خصوصی لگاؤ تھا۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سے اس کی سلطانی کا آغاز ہوا جسے اس کی فیاض طبیعت نے خدمتِ خلق میں ڈھال کر سخاوت کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ عوام میں لکھ بخش کے نام سے معروف ہوا۔ گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر بے شمار فتوحات کو اپنے نام کرنے والے سلطان کو دشمن تو شکست نہ دے سکا مگر چوگان کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر فوت ہوا۔ لاہور میں ایبک روڈ اسی کے نام سے موسوم ہے اور وہیں پر اس کا مقبرہ بھی ہے۔ لاہور کی مٹی میں خزانے چھپے ہیں اور فضاؤں میں فیضؔ کی صدائیں رَچی ہیں، جن کو خدمتِ خلق کا فریضہ سونپ کر یہاں بھیجا جاتا ہے انھیں ہر دلعزیزی اور دلوں کی بادشاہت عطا کی جاتی ہے۔ ان کی سخاوت سے فیضیاب ہونے والے کسی دور میں انھیں گنج بخش کے لقب سے نوازتے ہیں اور کبھی لکھ بخش کا لقب عطا کرتے ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم