94

ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا

ایران میں حجاب کو ایشو بنا کر جو کچھ ہو رہا ہے ، آج ارادہ تھا اس کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اصلیت واضح کرنے کا ۔ دوسرے 17اکتوبر متحدہ انڈیا کے عظیم مصلح سرسید ؒکا یوم پیدائش یعنی ’’سرسید ڈے‘‘ ہے اس حوالے سے بھی کچھ الجھے گوشے واضح کرنے کی خواہش تھی مگر کیا کریں ہمارا پاپولر کھلاڑی آئے روز کوئی نئی سے نئی درفنطنی چھوڑ دیتا ہے، جس کی کشش و اہمیت درویش کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔تازہ ارشاد نازل ہوا ہے کہ ’’جب میری حکومت تھی تو ذمہ داری میری تھی مگر حکمرانی یا پاور کسی اور کے پاس تھی مجھے ساڑھے تین سال میں آدھی پاور بھی مل جاتی تو لوگ میرا مقابلہ شیر شاہ سوری سے کر سکتے تھے۔ ‘‘ اس کے جواب میں احسن اقبال کا یہ کہنا ہے کہ موصوف کو اتنی زیادہ پاور ملی ہوئی تھی کہ جس کے سامنے سپریم کورٹ بھی بے بس تھی وہ اپنے سیاسی مخالفین پر دھڑا دھڑ بے بنیاد اور بلاثبوت مقدمات قائم کرتے رہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف تو کئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ اس لاڈلے کو اتنے طویل دورانیے میں جس قدر طاقت ملی ہوئی تھی اگر مجھے اس سے آدھی بھی مل جاتی تو نہ جانے میں ملک کو کہاں سے کہاں تک لے جاتا۔

سول ملٹری تنائو پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب وزیر اعظم کرپٹ ہوتا ہے کیونکہ ایجنسیوں سے کچھ چھپا نہیں ہوتا وہ اگر وزیر اعظم کے فون ٹیپ کرتی ہیں یا چیک رکھتی ہیں تو یہ ان کا خریف ہے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ان کا وزیر اعظم کیا کارستانیاں کر رہا ہے میرے ساتھ ایک پیج پر وہ اسی لئے ہیں کہ انہیں میرے متعلق سارا علم ہے ۔آج اگر انہیں پورے ملک میں مسٹر یوٹرن قرار دیا جاتا ہے تو اس کے ثبوت وہ ہر روز خود اپنے بیانات سے فراہم کرتے ہیں۔ کیا وہ اس نوع کی اپنی خودساختہ منطق پیش نہیںکرتے کہ لیڈر تو ہوتا ہی وہ ہے جو یوٹرن لیتا ہے اس کے بغیر کوئی بڑا لیڈر بن ہی نہیں سکتا ۔آج لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر آپ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ، آپ بے اختیار وزیر اعظم تھے جس کے فیصلے کوئی اور کرتا تھا تو پھر آپ کٹھ پتلی بن کر اس کھوکھلے و نمائشی عہدے کے ساتھ کیوں چمٹے ہوئے تھے؟اب اگر منتخب ایوان نے اکثریتی فیصلے کے ساتھ عدم اعتماد کرتے ہوئے آپ کو اس بے اختیار نمائشی عہدے سے ہٹا دیا ہے تو ماہی بے آب کی طرح تڑپ کیوں رہے ہیں؟عالمی سیاست کا فہم وشعوررکھنے والے پوچھ رہے ہیں کہ یہ سب تسلیم کرنے کے بعد آپ کا امریکی سازش کا گھڑا ہوا بیانیہ کہاں جائے گا؟سوال اٹھے گا کہ کیا امریکی اس قدر بے وقوف اور احمق ہیں کہ وہ ایک ایسے شخص کے خلاف سازشی اسکیمیں تیار کرتے جس کی حکمرانی نمائشی یا محض دکھاوے کی تھی، اصل پاور تو کسی اور کے پاس تھی ؟آخر کسی مرے کو شاہ مدار کیوں ماریں گے؟میڈیا کا یہ پوچھنا بھی بنتا ہے کہ جب پاورشیئرنگ کا فارمولا وہی ہے، طاقتور محکمہ بھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ اس طرح قائم و دائم ہے بلکہ اگر وہ خود کو نیوٹرل کہتے ہیں تو آپ جھلا کر کیوں بدکتے ہو کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے یعنی نیوٹرل ہرگز نہ بنو تو پھر کیا بنو؟ یہ کہ منتخب حکومت کا ساتھ دو ، ساتھ ہی تو وہ دے رہے ہیں تو پھر آپ کو غصہ کس بات کا ہے ؟یہ کہ میری حکومت کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ تو کیا یہ آپ ہی کا وہی منتخب ایوان نہیں جس نے موجودہ اتحادی حکومت کو اکثریتی ووٹ سے چنا ہے، جسے ختم کرنے کیلئے آپ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے قریہ قریہ عوام کو اشتعال دلا رہے ہیں؟سوال یہ ہے کہ اگر وہ بے اختیار نمائشی عہدہ تھا اور پاور شیئرنگ کی پتلی صورتحال وہیں کی وہیں ہے تو پھر آپ کس برتے پر اسی بے اختیار عہدے کیلئے یوں بھٹک رہے ہیں؟آپ کو تو پہلے یہ جمہوری اصول منوانے کیلئے کوشاں ہونا چاہئے کہ منتخب پارلیمان کی کامل بالا دستی ہو گی اس کا چنا ہوا قائد ہی اصل اختیارات کا مالک اور قوم کا حقیقی لیڈر ہو گا دیگر تمام محکموں یا اداروں کو آئین کی عین مطابقت میں اپنی اپنی حدود کے اندر رہ کر کام کرنا ہو گا، یہی رونا تو ن لیگ اور پی پی کی قیادتیں کئی دہائیوں سے روتی چلی آ رہی ہیں، جن کے خلاف دشنام طرازی کا کوئی موقع آپ جانے نہیں دیتے اورآج آپ کو شیر شاہ سوری کیوں یاد آ رہا ہے؟شیر شاہ سوری کی عوامی پہچان تو جی ٹی روڈ کی تعمیر ہے اور آپ کاشروع دن سے یہ دعویٰ رہا ہے کہ قومیں سڑکوں کی تعمیر سے ترقی نہیں کرتی ہیں نواز شریف نے بہت برا کیا جو پورے ملک میں ذرائع مواصلات کی ترقی کیلئے سڑکوں کے جال بچھاتا رہا۔ موٹر ویز اور میٹرو روٹس ،بسیں یا ٹرینیں چلا کر اس نے بہت برا کیا ۔آج یہ عجب الٹی گنگا بہا دی ہے کہ اگر مجھے آدھی پاور بھی مل جاتی تو میرا تقابل شیرشاہ سوری سے کیا جاسکتا تھا ۔افسوس آپ یہ سب نہ کر سکے اور محض کٹھ پتلی بننے پر اکتفا کر لیا ۔آپ کو تو اپنے سے قبل آنے والے تمام منتخب وزرائے اعظم کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے کہ ایسی بے اختیاری کے باوجود جس کا آج آپ رونا رو رہے ہو، انہوں نے عوامی خدمت اور تعمیروترقی کے کتنے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے اور ساتھ ساتھ عوامی اتھارٹی منوانے کیلئے کوشاں بھی رہے بالخصوص نواز شریف جس نے شیر شاہ سوری سے بڑھ کر پاکستان کو موٹر ویز کے تحائف پیش کئے، ہمارے کروڑوں عوام جن سے دن رات مستفید ہو رہے ہیں ان کیلئے شیر شاہ سوری کا کریڈٹ تسلیم کرتے ہوئے آپ کو ان سے معافی کا خواستگار ہونا چاہئے کہ میں نے آپ لوگوں کے ساتھ اتنی زیادتیاں کیوںکیں۔ مجھے تو اب معلوم ہوا ہے کہ یہاں طاقتور لوگ وزیر اعظم کو بے اختیار رکھتے ہیں اور اصل پاور کا استعمال خود کرتے ہیں اور اپنے فینز کے سامنے یہ بھی تسلیم کرلیں کہ ہم ہی میں نہ تھی کوئی بات جو کارکردگی نہ دکھا سکے اور اب رادھا تب تک نہیں ناچے گی جب تک کہ نومن تیل نہیں ہو گا اور ٹیڑھے آنگن کا بہانہ بھی نہیں چلے گا۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم