360

عمران خان کے بیانیے کی جیت؟

پاکستان تحریک انصاف کو سب سے پہلے تو ضمنی انتخابات میں بھاری کامیابی پر مبارک باد۔ سیاسی پنڈت تو کافی عرصے سے عمران خان کے جلسوں کو دیکھ کر کہہ رہے تھے کہ ان کے بیانیے کو عوامی پذیرائی مل رہی ہے، لیکن ایک سوال یہ تو بنتا ہے کہ اگر عمران خان اکثر حلقوں پر اپنی جگہ کسی اور امیدوار کو کھڑا کرتے تو نتائج کتنے مختلف ہو سکتے تھے؟

سابق حکمراں جماعت ویسے ہی قومی اسمبلی میں واپسی کے حق میں نہیں۔ اپنی نشستوں سے استعفے دینے والی یہ جماعت پہلے دن سے ان ضمنی انتخابات کو صد فی صد سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ انتخابات ویسے تو ہیں ہی سیاسی عمل لیکن تحریک انصاف کی اپروچ مختلف تھی۔ قومی اسمبلی میں جانے کی بجائے اس نے ان انتخابات کو عوام میں پذیرائی ثابت کرنے کے لیے کامیابی سے استعمال کیا۔ اب ان نشستوں پر دوبارہ ضمنی انتخاب ہو گا یا نہیں تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن نے طے کرنا ہے، لیکن پوائنٹ سکورنگ گیم میں قومی خزانے کو کروڑوں کے ٹیکے کے عوض تحریک انصاف یقیناً پھر نمبر لے گئی۔

ان ضمنی انتخابات میں پارٹی سربراہ عمران خان قومی اسمبلی کی آٹھ میں سات نشستوں پر امیدوار تھے۔ جو ایک نشست انہوں نے شاہ محمود قریشی کی بیٹی کے لیے چھوڑی اس پر اور کراچی کے ملیر کے علاقے میں انہیں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ اس طرح پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن دونوں نے دو دو نشستیں کھوئیں۔

 ان غیرحتمی نتائج سے ایک بات واضح ہے کہ اگر تحریک انصاف کوئی دوسرا امیدوار کھڑا کرتی تو نتائج کافی مختلف ہو سکتے تھے۔ پاکستانی سیاست میں آج بھی شخصیات اور ان کا کرشمہ چلتا ہے۔ عمران خان ہی تحریک انصاف ہے اور تحریک انصاف عمران خان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لوگ ان کی شخصیت اور بیانیے سے متاثر ہیں۔ وہ کیسے ان کی جگہ کسی اور کو ووٹ دے سکتے تھے۔

اس ملک خداداد میں سیاست میں کچھ بھی ثابت کرنا ناممکن ہے۔ کس سیاسی بیان کو سچ مانا جائے کسے نہیں، عوام کے لیے یہ سب سے بڑا اور مشکل امتحان ہے۔ پر یقین ایک ایسے وقت میں جب سیاسی اتحاد پی ڈیم ایم کی حکومت بدعنوانی کے مقدمات سے ایک ایک کرکے ’باعزت‘ طور پر بری ہو رہی ہے، عمران خان کا ’چور چور‘ کا بیانیہ اب بھی ان کے ووٹروں کے دل و دماغ میں راسخ گھر کر چکا ہے۔ آڈیو لیکس بھی انہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں۔ موجودہ انتہائی منقسم سیاست میں شاید مہنگائی اور پیٹرول کی قیمتیں بھی ثانوی حیثیت حاصل کر چکی ہیں۔

جن جن حلقوں میں تحریک انصاف نے میدان مارا وہاں وہاں انہوں نے دس بیس ہزار ووٹ کی برتری لی لیکن ملتان میں جہاں نشست ان کے ہاتھ سے گئی وہاں پیپلز پارٹی کے سید علی موسیٰ گیلانی نے 16 اکتوبر کے انتخابات میں سب سے زیادہ یعنی ایک لاکھ سات ہزار ووٹ حاصل کیے۔ انہیں تقریباً 25 ہزار ووٹ زیادہ ملے۔

 

یبرپختونخوا جو گذشتہ نو سال سے تحریک انصاف کے ’بخار‘ کی کیفیت میں ہے وہاں اب بھی عمران خان کا سکہ چل رہا ہے۔ پی ڈی ایم خصوصا عوامی نیشنل پارٹی کے اپنے تازہ دم اور بڑی عمر کے شیر میدان میں اتارے لیکن ان کی پھر بھی نہ چلی۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کافی طویل عرصے سے سیاسی اکھاڑے میں چاروں شانے چت پڑی ہے۔ اسے اپنا بیانہ، حکمت عملی اور شاید قیادت سب کے بارے میں دوبارہ غور و غوص کی اشد ضرورت ہے۔ انڈیا میں کانگرس میں غیر گاندھی رہنما کے بارے میں سوچا جا رہا ہے تو بہتر ہے کہ یہ جماعت اپنے ’نان ولی‘ حل پر بھی غور کر لے۔ 

صوفیوں کی سرزمین پر جدی پشتی سیاست کا زبردست ٹکراؤ تھا جس کی وجہ سے سب سے بڑی تعداد میں ووٹروں کو پولنگ سٹیشن تک لایا گیا۔ لیکن ملیر میں انتہائی کم ووٹوں پر یعنی 32 ہزار لے کر عبدالحکیم بلوچ کو عمران خان کو ہرانے کا اعزاز ملا۔ جیت ایک ووٹ سے ہو یا ایک لاکھ سے جیت ہی ہوتی ہے لیکن ووٹروں کے رجحان کو ظاہر کرتی ہے۔

تحریک انصاف کی نظروں میں پارلیمان کی وقعت تو 2014 کے بعد سے عیاں ہے۔ وہ ایوان سے زیادہ عوام سے براہ راست بات کرنے انہیں ہر وقت مصروف و پرجوش رکھنے کی حکمت عملی پر گامزن رہی ہے۔ اس کی سوچ ایوان سے زیادہ سیاسی میدانوں پر مرکوز رہی ہے اور تازہ ضمنی انتخاب بھی اس کی اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

تحریک انصاف کے ووٹروں کو پہلے سے معلوم تھا کہ عمران خان کی جیت کی صورت میں ان سب نشستوں پر دوبارہ انتخاب ہو گا۔ پھر بھی وہ آنکھیں بند کر کے جوق در جوق ووٹ ڈالنے آئے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے نتائج کے سامنے آنے کے بعد بھی پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت جلد انتخابات کروانے کے بارے میں سوچ رہی ہو گی؟ آسان جواب ہے ہرگز نہیں۔ ضمنی انتخابات میں تو تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کر لی لیکن عام انتخابات کے جلد از جلد انعقاد کے اس کے ہدف کو یقینا مزید مشکل بنا دیا ہے۔

اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ’مارچ اور دھرنے‘ کے ترپ کے پتے کے سامنے پی ڈی ایم کتنا وقت حاصل کر سکے گی؟

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز