123

قائد اعظم کا دست راست نظر انداز

پاکستان کی 75 ویں سالگرہ پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک یادگاری 75 روپے کا کرنسی نوٹ جاری کیا ہے جس پر قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ فاطمہ جناح، علامہ اقبال اور سرسید احمد خان کی تصاویر شایع کی گئی ہیں۔

ان قائدین کے ساتھ تحریک پاکستان کے ایک قائد شہید ملت لیاقت علی خان کو فراموش کردیا گیا ہے جب کہ ان کی تصویر کو بھی لازمی طور پر ان اکابرین کے ساتھ شایع کی جانی تھی۔ ان کو نظر انداز کرکے دراصل پوری تحریک آزادی کے ایک اہم کردار کو غائب کردیا گیا ہے۔ کیا بھارت کی آزادی کے قائدین کی فہرست سے جواہر لال نہرو کو نکالا جاسکتا ہے۔ وہ بھارت میں گاندھی کے بعد دوسرے نمبر کے سب سے بڑے قائد مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح قائد اعظم کے دست راست لیاقت علی خان کی شخصیت کو بھلانا ہمیں پسند نہیں آیا۔

 

کیا قائد اعظم کے لیاقت علی خان کی خدمات کے اعتراف میں کہے گئے یہ الفاظ پاکستان کی تاریخ سے حذف کیے جاسکتے ہیں۔ قائد اعظم نے کہا تھا ’’ لیاقت علی خان میرے دست راست ہیں انھوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں دن رات ایک کردیے ہیں۔ ان جیسا سنجیدہ، لائق اور اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے والا مشکل سے ملے گا ، وہ اگرچہ ایک نواب زادہ ہیں لیکن ایک عام آدمی کی طرح کام کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک حصول پاکستان سے بڑھ کر کوئی اور کام اہم نہیں ہے۔‘‘

 

جب قائد اعظم ہندوستانی سیاست سے مایوس ہو کر لندن جا کر مقیم ہوگئے تھے تو وہ لیاقت علی ہی تھے جو انھیں منا کر ہندوستان واپس لائے تھے اور پھر اس کے بعد تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تھا۔ لیاقت علی خان بے شک ایک نواب خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ وہ چاہتے تو سیاست کے بکھیڑے میں پڑنے کے بجائے عیش و آرام سے اپنی زندگی گزار سکتے تھے مگر انھوں نے مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا اور قیام پاکستان کے لیے قائد اعظم کا ہر قدم پر ساتھ دیا۔

 

آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں اور احساس ذمے داری کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم نے آپ کو مملکت پاکستان کا پہلا وزیر اعظم مقرر کیا۔ اس سے قبل آپ یوپی لیجسلیٹیو اسمبلی کے ممبر تھے۔ اس وقت آپ قائد اعظم کے ساتھ ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل تھے۔ جب قائد اعظم نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تو آپ بھی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ اس طرح قائد اعظم کی رہنمائی میں مسلمانان ہند کے مسائل کو حل کرتے رہے۔ 1936 میں بمبئی میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں آپ کو مسلم لیگ کا سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا۔

آپ 1940 میں ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تب سے لے کر قیام پاکستان تک اس کے ممبر رہے اور جب 1946 میں ہندوستان میں کانگریس اور مسلم لیگ کی مشترکہ حکومت تشکیل پائی تو آپ اس کے وزیر خزانہ مقرر ہوئے۔ اس سلسلے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب “India Wins Freedom” میں لکھا ہے کہ کانگریس چاہتی تھی کہ مسلم لیگ اپنا وزیر خزانہ مقرر کرے تاکہ مسلم لیگ کی جگ ہنسائی ہو سکے کیونکہ ہندوؤں میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مسلمان حساب کتاب میں کمزور ہوتے ہیں چنانچہ وہ جانتے تھے کہ مسلم لیگ کسی بھی حال میں وزیر خزانہ کے لیے اپنا ممبر پیش نہیں کرے گی چنانچہ وہ اپنے کسی ممبر کو وزیر خزانہ مقررکردیں گے۔

 

اس عہدے کو حاصل کرنے کے لیے ولبھ بھائی پٹیل بہت بے چین و بے قرار تھے مگر ہوا یہ کہ قائداعظم نے لیاقت علی خان کو وزیر خزانہ کے لیے پیش کردیا اس طرح کانگریس کو سردار پٹیل کو وزیر داخلہ بنانا پڑا۔ لیاقت علی خان کے لیے گوکہ وزیر خزانہ کا قلم دان سنبھالنا کوئی آسان نہ تھا مگر آپ نے اس وزارت کو ایسے احسن طریقے سے چلایا کہ انگریز بھی آپ کو مان گئے۔ آپ کے وزیر خزانہ بننے سے کانگریس کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ لیاقت علی خان نے اس وزارت کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کردیا اور کانگریس کی ناک میں دم کردیا۔

کانگریس جس خرچ کے لیے بھی تجویز پیش کرتی آپ اسے رد کردیتے۔ آپ نے سالانہ بجٹ ایسا غریب پرور اور شان دار پیش کیا کہ انگریز سرکار بھی آپ کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی۔ ادھر غریب لوگوں کو اس بجٹ سے جو فائدہ ہوا اس پر وہ لیاقت علی خان کے دیوانے ہوگئے۔ جب قیام پاکستان کے بعد آپ وزیر اعظم مقرر ہوئے تو اس نئے اور بے وسیلہ ملک کو چلانا کوئی آسان کام نہ تھا مگر آپ نے انتہائی خوش اسلوبی سے ملک کو چلایا۔

ایک طرف پاکستان کی طرف آنے والے مہاجرین کو آباد کیا تو دوسری طرف ملک میں نظم و نسق قائم کیا اور دوسرے ممالک سے رشتوں کو قائم کرنے میں ماہرانہ سیاسی بصیرت سے کام لیا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی کی ساری ذمے داری آپ پر آن پڑی تھی، آپ نے انتہائی ذہانت اور ہمت سے اپنی ذمے داریاں پوری کیں اور بھارتی لیڈروں کی پاکستان کو ختم کرنے کی سازشوں کا انتہائی حوصلے سے منہ توڑ جواب دیا۔ آپ نے امریکا سے تعلقات قائم کرکے دور اندیشی کا ثبوت دیا تھا۔

امریکا نے پاکستان کی مالی اور حربی سطح پر بھرپور امداد کی جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت مضبوط ہوئی اور پاکستان بھارت کے سرحدی حملوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ لیاقت علی خان پاکستان کے ایک غریب پرور وزیر اعظم تھے آپ اپنے محل اور زمین جائیداد کو ہندوستان میں چھوڑ کر آگئے تھے۔ یہاں آپ سرکاری رہائش گاہ میں رہتے تھے، ان کا اپنا یہاں کوئی ذاتی مکان نہیں تھا، ان کا کوئی بینک بیلنس بھی نہیں تھا۔

جب 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں آپ کو شہید کردیا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ کی شیروانی کے نیچے پہنا ہوا کرتہ پھٹا ہوا تھا اور آپ کی جیب میں سے صرف چودہ آنے برآمد ہوئے تھے۔ ایسے بے لوث قائد کاش اس قوم کو بعد میں بھی نصیب ہوتے رہتے تو یہ قوم کبھی غربت کا شکار نہ ہوتی اور ملک معاشی اور سیاسی طور پر عدم استحکام سے دوچار نہ ہوتا۔ ایسے رہنما کو فراموش کرنا اور ان کی خدمات کو نظرانداز کرنا ایک بڑا المیہ ہے۔

یہ سب کچھ حکومتی سطح پر ہو رہا ہے جب کہ پاکستان کے عوام آج بھی ان کے احسانات کے شکر گزار ہیں اور ان کی عزت و توقیر کو کبھی بھی کم نہیں ہوں دیں گے۔

اس میں شک نہیں کہ عوام وطن عزیز کی 75 ویں سالگرہ پر بے حد خوش ہیں مگر اسٹیٹ بینک کی جانب سے اس موقع پر جاری کردہ 75 روپے کے کرنسی نوٹ پر اپنے محبوب قائد لیاقت علی خان کو فراموش کرنے پر بہت مایوس ہیں۔ چنانچہ یہ پاکستان کے عوام کا مطالبہ ہے کہ 75 روپے کا نیا کرنسی نوٹ جاری کیا جائے جس میں لیاقت علی خان جیسی عظیم شخصیت کو بھی شامل کیا جائے تاکہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان پر قربان ہونے والے اس رہنما کی خدمات کو سراہا جاسکے۔

بشکریہ ایکسپرس