برازیل کا الیکشن

برازیل میں الیکشن کا فاتح ناراض ہے اور ہارنے والا خوش ہے وجہ یہ ہے کہ جیتنے والے کو ایک بڑے مارجن سے جیتنے کی توقع تھی اور شکست خوردہ امیدوار کو اتنے زیادہ ووٹ لینے کی امید نہ تھی گذشتہ اتوارکے الیکشن میں اگر اپوزیشن لیڈر لولا ڈا سلوا پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لے لیتے تو یہ مقابلہ پہلے ہی راؤنڈ میں ختم ہوجاتا مگر دونوں صدارتی امیدواروں نے کیونکہ پچاس فیصد سے کم ووٹ لئے ہیں اسلئے اب فیصلہ کن معرکہ 30اکتوبر کو ہونیوالے رن آف الیکشن میں ہو گادوسرے نمبر پر آنیوالے امیدوار Jair Bolsonaro جو موجودہ حکومت کے سربراہ بھی ہیں کو پہلے ہی راؤنڈ میں مکمل شکست کا خطرہ تھا برازیل کی سرویز کمپنیاں کئی مہینوں سے Luiz Inacio Lula Da Silva کے ایک بڑی اکثریت سے جیتنے کی پیش گوئی کر رہی تھیں لاطینی امریکہ کے علاوہ مغربی ممالک میں بھی ان نتائج پر اسلئے حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ صدر جئیر بولسونیرو کا چار سالہ دور اقتدار نہایت سنسنی خیز اور پر آشوب تھا برازیل کا معاشرہ بری طرح دو متحارب دھڑوں میں منقسم ہو چکا تھا۔ بولسو نیرو صدر ہونے کے باوجود ریاستی اداروں پر سخت تنقید کر رہے تھے ان حالات میں عام تاثر یہی تھا کہ عوام کی اکثریت ان سے بیزار ہوچکی ہے اسلئے لولا ڈا سلوا آسانی سے جیت جائیں گے مگر حتمی نتائج کے مطابق 76سالہ ڈا سلوا نے 47.25 فیصد اور بولسو نیرو نے 44.13فیصد ووٹ لئے ہیں ان دونوں کے علاوہ نو چھوٹی جماعتوں کے امیدوار بھی اس مقابلے میں شامل تھے جو دوسرے راؤنڈ تک نہیں پہنچ سکے اب یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ چھوٹی جماعتوں کے ووٹرز دوسرے راؤنڈ میں کسے ووٹ دیں گے۔یوں 217 ملین آبادی کا ملک جو دنیاکی چوتھی بڑی جمہوریت اور لاطینی امریکہ کا سب سے بڑا ملک ہے اب ایک مہینے تک ہیجان خیزی کا شکار رہے گا۔ 67سالہ جئیر بولسونیرو کے جارحانہ طرز حکمرانی نے انکے مخالفین کوخاصا برہم کیا ہوا تھا۔انکے دور صدارت میں لولا ڈا سلوا نے بیس مہینے کرپشن کے الزام میں قید تنہائی کاٹی تھی اورانکی ورکرز پارٹی کے تین سو سے زیادہ اراکین کئی مہینوں تک جیلوں میں رہے تھے بولسو نیرو کئی ماہ سے الیکشن کمیشن پرناقابل اعتبار ہونیکا الزام لگا رہے تھے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے اپنے مداحوں سے کہا تھا کہ انتخابات کے صرف تین نتائج ہو سکتے ہیں پہلا یہ کہ وہ جیت جائیں‘ دوسرا انہیں گرفتار کر لیا جائے اور تیسرا انہیں قید کر دیا جائے۔الیکشن سے چار روز قبل انکی کنزرویٹو سوشل لبرل پارٹی نے ایک دستاویز پیش کی جس میں الیکشن کمیشن کے سینئر افسروں پر الزام لگایا گیا کہ وہ نتائج تبدیل کر دیں گے ان الزامات کے جواب میں عدالت عظمیٰ نے ان سے ثبوت مانگے تھے جو وہ پیش نہیں کر سکے تھے۔عالمی میڈیا ان خدشات کا اظہار کر رہاتھا کہ بولسو نیرو شکست کھانے کی صورت میں انتخابی نتائج کو مسترد کرکے برازیل کو طویل عرصے تک عدم استحکام کا شکار کر دیں گے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کہہ رہے تھے کہ کورونا وائرس کیوجہ سے برازیل میں مہنگائی بے قابو ہے اور اسوقت 33 ملین افراد کو بھوک کا سامنا ہے ایسے میں امریکی اخبارات کے مطابق بولسونیرو نتائج مسترد کر کے برازیل میں اسی قسم کے تناؤ اور تصادم کی صورتحال پیدا کر دیں گے جو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں 2020کے الیکشن کے بعد سے پیدا کی ہوئی ہے۔صدر بولسونیرو اور الیکشن کمیشن کے تصادم کو دیکھتے ہوئے برازیل کی عسکری قیادت نے اعلان کیا تھا کہ وہ فریقین کو مطمئن کرنے کیلئے دوسری مرتبہ اپنی نگرانی میں گنتی کروائے گی۔اب بولسونیرو نے نہ صرف پہلے راؤنڈ کے نتائج کو تسلیم کر لیاہے بلکہ انکی حامی یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ دوسرا راؤنڈ آسانی سے جیت لیں گے۔برازیل کی Opinion Polls کرنے والی کمپنیوں نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے جیئر بولسو نیرو کی مقبولیت کا غلط اندازہ لگایا تھا اسکی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اسوقت لاطینی امریکہ میں Anti Establishment  جذبات کی وجہ سے پانچ بڑے ممالک میں بائیں بازو کی حکومتیں قائم ہیں ان میں چلی‘ ارجنٹائن‘ میکسیکو‘ کولمبیااور پیرو شامل ہیں اس تناظرمیں سروے کمپنیوں کے سوالات کے جواب دینے والوں کی اکثریت نے بولسونیرو حکومت سے بیزاری کا اظہار کیا تھا۔ان غلط اندازوں کی ایک وجہ لولا ڈا سلوا کی مقبولیت بھی تھی وہ اس سے پہلے دو مرتبہ صدر رہ چکے تھے مگر وہ جنوری 2019کے الیکشن میں کرپشن کے الزامات کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے تھے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والے ڈا سلوا ایک میٹل ورکر تھے اور اپنے پینتیس سالہ سیاسی کیریئر میں ایک یونین لیڈر رہے تھے انکی عوام دوست سیاست کی وجہ سے انہیں Lion of Latin America کہا جاتا ہے انہوں نے بائیں بازو کی ورکرز پارٹی کی بنیاد 1980میں رکھی تھی اس جماعت نے اب تک آٹھ الیکشن لڑے ہیں ان میں سے چار میں کامیابی حاصل کی ہے اور چار میں رنر اپ رہی ہے ڈا سلوا کو 2019 میں ہائی کورٹ نے بائیس برس کی سزا سنائی تھی مگر بیس ماہ بعد عدالت عظمیٰ نے اس فیصلے کو تعصب پر مبنی قرار دیکر انہیں رہا کر دیا تھا۔اسوقت دونوں امیدوار صدارتی مہم چلانے کے علاوہ چھو ٹی جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں ماہرین کی رائے میں دوسرے راؤنڈ کا فیصلہ انیس بیس کے فرق سے ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ان حالات میں اہم سوال یہ ہے کہ تیس اکتوبر کو اگر شکست خوردہ امیدوار نے انتخابی نتائج تسلیم نہ کئے تو پھر کیا ہو گا اس صورت میں عسکری قیادت اپنی نگرانی میں دوبارہ گنتی کروا کے حتمی فیصلہ سنا سکتی ہے۔ جمہوریت پر اتنا برا دن بھی آنا تھا اسکا اندازہ کسی کو بھی نہ تھا۔

 

بشکریہ روزنامہ آج