169

ذرا سوچئیے!۔۔۔کل نہیں آج

         عہد حاضر میں جہاں دنیا تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو رہی ہے وہیں بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مسائل آئے روز شدت اختیار کر رہے ہیں ۔  مسائل بڑھنے کی بہت سی وجوہات ہیں جس سے نوجوان نسل تیزی سے جرائم کی دنیا سے منسلک ہو رہی ہے ۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہم تربیت یافتہ قوم نہ بن سکے ۔   منشیات ، زنا، قتل ، فحاشی ،بےحیائی کا استعال فیشن کے طور پر ہو رہا ہے ۔ان اقدار اور روایات کو ہم  نے ترک کر دیا ہے جو ہمارے معاشرے کی خوشحالی کا سبب تھیں۔  سوشل میڈیا کا منفی استعمال ہر عمر کےافراد کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔  ایک وقت تھا جب معاشرے میں بھائی چارہ اور ہمدردی کی فضا کو محسوس کیا جاتا تھا مگر آج بستیاں آدمیوں سے بھری ہوئی ہیں مگر انسانیت کہیں دم توڑ گئ ہے ۔
    ایک وقت تھا جب معاشرے میں مہمان کو رحمت سمجھا جاتا ہے ان کی خاطر داری دیسی سبزیوں ،  پھلوں سے کی جاتی تھی مگر آج اگر مہمان کی تواضع  چکن ، قیمہ ، بار بی کیو ، فش وغیرہ سے نہ کی جائے تو معیوب سمجھا جاتا ہے ۔  بہترین مہمان نواز وہی شخص تصور کیا جاتا ہے جس کے گھر کا دسترخواں مہنگی اشیاء سے سجا ہوا ہو ۔ وہ سابقہ روایات اور اقدار کہیں دم توڑتی رہ گئیں آج اخلاص کی بجائے پیسے کو عزت دی جاتی ہے ۔  معاشرہ زوال پذیری کا شکار ہے تو اس کی ایک بڑی  وجہ سابقہ روایات اور اقدار کا خاتمہ ہے۔ 
    ہمارے معاشرے میں بچوں کو تعلیم دی جاتی کہ وہ اچھے نمبرات سے کامیاب ہوں اچھا روزگار حاصل کرے اس کی تربیت پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہتا ہے ۔  ایک بچے کا والد جو سیگریٹ نوشی کرتا ہے اپنے بچے کو دکان پر بھیجتا ہے کہ جاؤ اور سیگریٹ لے  آو ۔ جب بچہ سیگریٹ لاتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے  کہ اس میں ایسی لذت اور سرور  ضرور ہے جو میرے والد اتنے شوق سے اور کثرت سے استعمال کرتے  ہیں۔  اسے بھی سیگریٹ اور نسوار استعمال کرنے کا دل کرتا ہے اور وہی بچہ کم عمری میں اس جانب مائل ہوجاتا اور  منشیات کا عادی بن کر جرائم کی دنیا سے منسلک ہو جاتا ہے ۔
  عہد حاضر ایک اور سنگین مسئلہ ہم برائی کو برائی سے ختم کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ قوانین ہمارے ہاں موجود ہیں مگر انصاف کے لیے کئ سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔  ہر شخص منصف بن کر دوسرے شخص کی سزا کا تعین خود کر رہا ہے ۔  کہیں کوئی جرائم میں ملوث پایا تو اس کو اس کی جان سے بڑھ کر ظلم کرتے ہیں ۔ کبھی ہم اپنا محاسبہ نہیں کرتے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں ہم خود اپنی اصلاح نہیں کرتے اور یہ امید کرتے ہیں کہ معاشرہ ٹھیک ہو جائے ۔ اگر ہر شخص اپنا مثبت کردار ادا کرے تو معاشرے میں مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ اپنے معاشرے میں ان لوگوں کا سہارا بنیں جن کی آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں ان بچوں کو تعلیم دیں جو فٹ پاتھ پر بے یارومددگار ہیں ۔ بچوں کے ہاتھ میں کاسہ نہیں قلم دیں تو معاشرہ دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

بشکریہ اردو کالمز