91

مسلم علی گڑھ یونیورسٹی میں عظیم انقلاب

گزشتہ دو کالموں میں راقم نے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی تصنیف ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ کی دوسری جلد سے وہ مضامین اخذ کیے تھے جن میں گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے اِسلام دشمن خیالات پر کڑی گرفت کی گئی تھی۔ اِسی دوران راقم کی نظر ترجمان القرآن کے تازہ شمارے پر پڑی جس میں علی گڑھ یونیورسٹی سے عربی کے ریسرچ اسکالر جناب نعمان بدر فلاحی کا طویل مضمون ’’علی گڑھ تحریک اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی‘‘ کے عنوان سے چھپا ہوا ہے۔ اُنہوں نے اُس یونیورسٹی کے سابق طلبہ اور اَساتذہ کی تحریروں اور گفتگوؤں سے اُس تبدیلی کی تصویرکشی کی ہے جو مودودی صاحب کی کتابوں، طلبہ اور اَساتذہ سے اُن کی ذاتی ملاقاتوں سے پیدا ہوئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں جبکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بیشتر طلبہ الحاد اَور دہریت کا شکار ہو رہے تھے، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریریں ماہنامہ ترجمان القرآن میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ اور ’’مسئلہ قومیت‘‘ پر اُن کے سلسلہ وار مضامین نے طلبہ علی گڑھ کو اَپنی جانب متوجہ کیا۔ لاہور کی سیرت کمیٹی اور کل ہند مسلم لیگ اُن مضامین کو علی گڑھ میں بار بار مفت تقسیم کر رہی تھیں، چنانچہ طلبہ کے فکرونظر میں ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی گئی اور اِسلام کو ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے تسلیم کرنے والے طلبہ کا ایک اسلامی حلقہ قائم ہوا۔

مولانا مودودی علی گڑھ سے اپنے ربط و تعلق کے بارے میں لکھتے ہیں ’’میرے والد مرحوم احمد حسن صاحب 1857ء کے ہنگاموں سے دو سال پہلے دہلی میں پیدا ہوئے۔ مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے وہ بالکل ابتدائی دور کے طالبِ علموں میں سے تھے۔ سرسیّد مرحوم نے جب مدرسہ قائم کیا تھا، تو وہ اَپنے خاندان اور رِشتےداروں میں سے چُن کر بہت سے لڑکوں کو علی گڑھ لے گئے تھے۔ چونکہ میری دادی کی مرحوم سے قرابت داری ہو گئی تھی، اِسی لیے میرے والد کا انتخاب اِسی سلسلے میں ہوا۔ اُس زمانے میں انگریزی تعلیم اور اَنگریزی تہذیب کے خلاف مسلمانوں میں شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی۔ میرے دادا کو میرے والد کا علی گڑھ میں تعلیم پانا سخت ناگوار تھا، مگر سرسیّد کے خیال سے خاموش تھے۔ ایک مرتبہ اُن کے ایک عزیز علی گڑھ تشریف لے گئے اور اِتفاقاً ایک جگہ کرکٹ کا کھیل دیکھ کر کھڑے ہو گئے۔ وہاں اُن کی نظر والد مرحوم پر پڑی اور اُنہیں یہ دیکھ کر بہت رنج ہوا کہ ایک پیرِ طریقت کا لڑکا انگریزی لباس پہنے، انگریزی طرز کا کھیل کھیل رہا ہے۔ دہلی واپس ہوئے، تو دادا سے مل کر کہا کہ بھائی صاحب! احمد حسن سے تو ہاتھ دھو لیجیے۔ مَیں نے اُسے علی گڑھ میں دیکھا کہ کافر کرتی پہنے گیند بلّا کھیل رہا ہے۔ یہ سن کر دادا کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور اُنہوں نے فوراً والد مرحوم کو علی گڑھ سے واپس بلا لیاـ‘‘

مضمون نگار نے سابق صدر شعبہ انگریزی پروفیسر اسلوب انصاری کے یہ تاثرات قلم بند کیے ہیں کہ یونیورسٹی میں کمیونسٹوں کا غلبہ تھا، مگر وہاں ایک بار اِسلامی ہفتہ منایا جاتا تھا جس میں باہر کے جید علما مدعو کیے جاتے تھے اور مغرب کی نماز کے بعد اسٹرٹیچی ہال میں اُن کی تقاریر ہوتی تھیں۔ مولانا مودودی یونیورسٹی میں تشریف لاتے اور پورا ہفتہ قیام کرتے۔ اِسی طرح سیّد سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، قاری محمد طیب اور مولانا اسلم جیراج پوری بھی تشریف لاتے، چنانچہ کمیونسٹ اثرات کے خلاف اسلامی ماحول اور مزاج پیدا ہونے لگا تھا۔

مبارک علی خاں میرٹھی جو 30ء کی دہائی میں یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے، وہ اَپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ 1940ء کے آخری ایام کا ہے۔ یونیورسٹی میں اسلامی ہفتہ منانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں جس کے انچارج ڈاکٹر امیر حسین صدیقی تھے۔ اُس ہفتے میں شرکت کے لیے مولانا مودودی مدعو کیے گئے تھے۔ ہم لوگ ترجمان القرآن کے ذریعے تین چار سال سے اُن کی تحریروں سے واقف تھے۔ یونیورسٹی جو اُس زمانے میں علم و فن کا عظیم الشان مرکز بنی ہوئی تھی، اُس میں ایک علم دوست کی حیثیت سے مولانا کا شایانِ شان استقبال ہوا۔ مولانا صبح دس بجے تاریخی اسٹرٹیچی ہال میں اپنا مشہورِ زمانہ مقالہ ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ پڑھنے والے تھے، لیکن وقتِ مقررہ سے بہت پہلے ہال میں تِل دھرنے کی بھی جگہ نہ رہی۔ مولانا مقالہ پڑھنے کھڑے ہوئے، تو سناٹا چھا گیا۔ طلبہ کے تندوتیز سوالات کے مولانا نے خندہ پیشانی سے جواب دیے۔ مجلس کے صدر پروفیسر حبیب نے بھی سوال پوچھا کہ ہمیں آپ دوسرا مقالہ سننے کا کب موقع دیں گے؟ دوسرے روز اُنہوں نے مولانا کو اپنے شعبے میں مدعو کیا جہاں اُنہوں نے ’’اسلام کے نظریۂ سیاسی‘‘ پر لیکچر دیا۔

علی گڑھ یونیورسٹی میں ’مجلسِ اسلامیات‘ بھی قائم تھی جس پر انگریزی کے استاد پروفیسر جلیل احمد خاں نے قبضہ کر لیا تھا اور اُسے ’ہمدردان جماعتِ اسلامی‘ میں تبدیل کر دیا تھا۔ اُس حلقے میں اچھے اچھے لوگ شامل تھے۔ افضل حسین (قیّم جماعتِ اسلامی ہند)، عبدالسلیم خاں، راؤ شمشاد علی خاں، عبداللہ صفدر علی (دہلی)، آسی ضیائی (ملتان)، شمس الہدیٰ (بہار)، سیّد حسین، سیّد احمد (الٰہ آباد)، فروغ احمد (ڈھاکہ)، احمد سورتی (علی گڑھ)، رحمت اللہ شاہ (بہاول پور)، اعجاز حسن قریشی (لاہور) اور زین العابدین (سعودی عرب) قابلِ ذکر ہیں۔

یونیورسٹی کا اسلامی حلقہ، روز بروز مضبوط ہوتا گیا۔ اُس سے وابستہ طالبِ علموں نے جماعتِ اسلامی کے اُس اجتماع میں شرکت کی تھی جو 1946ء میں پٹنہ میں منعقد ہوا تھا۔ اُس حلقے کا اثرورسوخ اِس قدر بڑھا کہ پاکستان کے قیام کے چار سال بعد وہ طلبہ تنظیم کے انتخابات میں پوری طرح حاوی نظر آیا اور دہریت اور اِشتراکیت کے اثرات زائل ہو گئے۔ 23 ستمبر 1979ء کو مولانا کے انتقال کی خبر علی گڑھ پہنچی، تو یونیورسٹی کے ہاسٹلوں کی مساجد میں فجر کی نماز کے بعد طلبہ نے اشکبار آنکھوں سے اُن کے لیے دعائے مغفرت کی۔ جامع مسجد میں غائبانہ نمازِ جنازہ اَدا کی گئی۔ نمازِ مغرب کے بعد یونین ہال میں تعزیتی جلسہ منعقد ہوا جو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔

مولانا کی جہدِ مسلسل کو اللہ تعالیٰ نے ایسا نوازا ہے کہ اب متعدد ممالک میں اسلامی حکومت کی باتیں ہو رہی ہیں اور اِسلام کے مکمل نظامِ حیات کی گونج شرق و غرب میں سنائی دے رہی ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم