243

کرونا واٸرس سرمایہ دارانہ نظام وحشت کا شاخسانہ


دنیا کے کئی ممالک میں کرونا وائرس نے خوف و دہشت پیدا کر رکھا ہے اگر اس وحشت کی گہرائی میں جائیں تو یہ وائرس مختلف ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے سرمایہ دارانہ مفادات کے حصول کے لئے پیدا کرتی ہیں مخلتف غذائیوں کے ذریعے اس وائرس کا پھیلاؤ کرایا جاتا ہے پھر سرمایہ دار میڈیا کے ذریعے خوف و ہراس پیدا کی جاتی ہے وائرس وائرس اور وائرس کے پھیل جانے کا بے ہودہ اور ناک پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اسلئے کہ یہی سرمایہ دار کمپنیاں سرمایہ کئ ضمن میں عوام کو لوٹنے کی تیاری کئے بیٹھی ہوتی ہیں اور وائرس کے پھیل جانے کا واویلا کر کے پھر اس کی ویکسین منظر پر لائی جاتیں ہیں یہ سرمایہ دارانہ نظام وحشت کی پراگندگی کا شاخسانہ ہے کہ پہلے سرمایہ دار گروہ بیماریوں کا پھیلاؤ کرتے ہیں پھر میڈیا مہم کے ذریعے سماج میں خوف و ہراس پیدا کیا جاتا ہے اور بعد میں اس کے علاج معالجے کی دریافت کے قصے سنائے جاتے ہیں اور یوں پھر مارکیٹوں میں ویکسین آ جاتے ہیں اور ایک لوٹ مار کا طوفان بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے مختصر حضرات کی ڈرامہ بازیاں منظر پر آ جاتی ہیں بہرحال فی الحال یہ وائرس ترقی یافتہ ملکوں بالخصوص چین میں بہت زیادہ ہے
اور اس وائرس کے اندیشے اور خدشے دوسرے ملکوں میں پھیل جانے کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں
یہ کیوں پھیلتا ہے اس کے اسباب کیا ہیں
بے شمار وجوہات ہو سکتی ہیں انسانیت کے خلاف سرمایہ داروں کی روایتی سازش بھی کہا جا سکتا ہے لیکن جو ابتدائی تحقیق اس وائرس کے پھیل جانے کے بارے میں سامنے آ رہی ہیں ان کے مطابق حرام جانوروں کو کھانے کے باعث 'کرونا وائرس' کے پھیل جانے کے اندیشے بتائے گئے ہیں اس وائرس کے باعث چین کے دو شہروں کو مکمل سیل (Banned) کرنے کی اطلاعات ہیں لیکن اسلامی مفکرین اور سکالرز کا کہنا ہے کہ سائنسی اعتبار سے تو یہ وائرس سرمایہ دارانہ نظام کی سازش ہو سکتی ہے لیکن اسلامی نقطہ نظر مکروہ جانور کھانے سے منع فرمایا گیا ہے
انسانیت کا محافظ دین اسام ہے چین کے اندر اس وقت جو وبائی بیماری عام نظر آتی ہے اسے ابھی تک کوئی خاص نام نہیں دیا گیا ہے بس سرمایہ دار گروہوں کی جانب سے کرونا وائرس پروپیگنڈا جاری ہے اس وائرس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ وائرس بڑا ھی بھیانک اور خاموش قاتل ہے اسی لئے وقتی طور پر اسے قاتل وائرس کرونا وائرس کہا گیا ہے اس بیماری میں لمحوں میں زکام اور لوز موشن ہونے لگتے ہیں اور پھر جان چلی جاتی ہے چین کے دو شہروں کو مکمل طور پر پورے ملک سے کاٹ دیا گیا ھے جہاں 34/ ملین لوگ رھتے ھیں دونوں شہروں میں سڑکوں پر سناٹا ھے وھاں نہ کوئی جا رھا ہے اور نہ وھاں سے کسی کو باھر جانے دیا جا رہا ہے اس وائرس پر ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ھے کہ یہ قاتل وائرس مختلف قسم کے زہریلے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے کھانے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے خاص کر چمگادڑ اور سانپ بچھو کے سوپ پینے کی وجہ سے پھیلا ہے کیون کہ چین کے اندر شاید ہی کوئی ایسی چیز ہوگی جسے نہ کھایا جاتا ہو
لہذا یہ اللہ کی طرف سے ایک عذاب ہے اور سرمایہ دارانہ نظام وحشت کا شاخسانہ ہے

بشکریہ اردو کالمز