95

بولنے کی آزادی؟

سلیم احمد جدید اردو ادب کے وہ منفرد نثرنگار اور صاحب طرز شاعر ہیں جنہوں نے اپنے عہد کی فضا کو تنقیدی اور تخلیقی سطح پر بے حد متاثر کیا۔انہوں نے کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ماہنامہ ’’ساقی‘‘ کے جون 1951ء کے شمارے میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا’’آزادیٔ رائے کو بھونکنے دوـ‘‘۔بعد ازاں جمال پانی پتی نے ’’مضامین سلیم احمد‘‘کے نام سے ان کی تحریریں مرتب کیں تو یہ مضمون بھی شامل کیا۔اکادمی بازیافت کے زیر انتظام شائع ہونے والی یہ کتاب اور سلیم احمد کا مضمون یوں یاد آیا کہ لندن کے ایجوئر روڈ پر ایک کافی شاپ میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مریم اورنگ زیب کو ’’آزادیٔ رائے‘‘کی آڑ میں ہراساں کیا گیاہے۔جب اس نہج پر سوچنا شروع کیا تویادوں کا دائر ہ وسیع ہوتا چلا گیا اور بات ’عہد ایوب‘تک جا پہنچی ۔پہلا مارشل لا نافذ ہونے کے بعد سنسرشپ کے نت نئے انداز متعارف کروائے گئے ،افواہیں پھیلانے کو بھی جرم قرار دیدیا گیا۔اردو ادب کی ممتاز ادیبہ قرۃالعین حیدر پریشانی کے عالم میں ایوب خان کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کے دفتر جا پہنچیں ۔بال بکھرے ہوئے ،چہرہ اداس ،آنکھیں پریشان۔آتے ہی کہنے لگیں:’’اب کیا ہوگا؟‘‘قدرت اللہ نے وضاحت طلب کی ،کس بات کا کیا ہوگا؟قرۃالعین نے کہا:’’میرا مطلب ہے اب ادبی چانڈوخانوں میں بیٹھ کر لوز ٹاک کرنا (یعنی گپیں ہانکنا)بھی جرم ٹھہرا۔قدرت اللہ شہاب نے ان کی تشویش کو درست قرار دیتے ہوئے کہا :’’ہاں ،گپ شپ بڑی آسانی سے افواہ سازی کے زمرے میں آکر گردن زدنی قرار دی جا سکتی ہے۔‘‘قرۃالعین کو جیسے یقین نہیں آرہا تھا ،انہوں نے نہایت کرب سے انداز بدل کر پھر سوال کیا:’’تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی عائد ہے؟‘‘قدرت اللہ شہاب اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے مارشل لا ضابطے کے تحت بھونکنے کے خدشات و خطرات کی کچھ وضاحت کی تو عینی کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کسی قدر لاپروائی سے کہا ،’’ارے بھائی،روز روز کون بھونکنا چاہتا ہے۔لیکن بھونکنے کی آزادی کا احساس بھی تو ایک عجیب نعمت ہے ۔‘‘

اظہار رائے کی آزادی جسے سلیم احمد اور قرۃالعین نے طنزیہ پیرائے میں ’’بھونکنے کی آزادی‘‘ قرار دیا،واقعی ایک خوبصورت احساس ہے لیکن بدقسمتی سے اب اس آزادی کا مفہوم اور معانی بدل گئے ہیں۔اب آزادی رائے کو بھونکنے کی مکمل آزادی سے تعبیر کیا جاتاہے۔اگر آپ کا تعلق قوم یوتھ سے ہے،انصافیے ہیں توپھر کسی بھی محفل میں بدتمیزی سے پیش آنا ،کہیں بھی سیاسی مخالفین کو دیکھ کر ان پر آوازیں کسنا یا پھر سوشل میڈیا پر خبث باطن آشکار کرنا آپ کا بنیادی حق ہے۔چند روز ہوتے ہیں میں نے سماجی رابطوں پر بنائے گئے ایک کمیونٹی گروپ میں تجویز دی کہ اگر مقصدیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو سیاسی نوعیت کے تبصروں پر پابندی ہونی چاہئے کیونکہ یہ کوئی سیاسی اکھاڑا نہیں بلکہ ایک مخصوصی کمیونٹی کے مسائل اجاگر کرنے کے لئے بنایا گیا گروپ ہے۔اس پر کسی نے تبصرہ کیا ’’یہ چاہتے ہیں چور کو چور نہ کہو‘‘۔یعنی ’’بھونکنے کی آزادی‘‘کے تحت آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی کو بھی چور ،ڈاکو ،لفافہ صحافی یا بدعنوان کہہ سکیں۔ ہمارے دوست ریحان حسن جو رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں میڈیا سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔انہوں نے ایک زمانے میں اندرون سندھ جاکر یہ جاننے کی کوشش کی کہ تمام تر نامساعد حالات اور بیڈ گورننس کے باوجود بھٹو کیوں زندہ ہے اور وہ اس نتیجے پرپہنچے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے عام آدمی کو جرات اظہار دی ۔مزدور اور محکوم طبقے نے بھٹو کی آشیر باد سے خوف کے بت توڑ ڈالے اور خاموشی ترک کرکے بولنا شروع ہوگئے ۔یہی وجہ ہے کہ لوگ آج بھی جیے بھٹو کے نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں ۔سیدریحان حسن کے مطابق عمران خان کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے بے زبانوں کو زبان بخشی اور اب وہ نتائج کی پروا کئے بغیر بولتے چلے جا رہے ہیں۔جب انہوں نے یہ تھیوری پیش کی تومیں نے بے ساختہ کہا ،زبان تو دیدی مگر بولنے کے آداب نہیں سکھائے ۔اس کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کو سرجن بننے کے لئے درکار تربیت دینے سے پہلے ہی اس کے ہاتھ میں نشتر تھما دیں ،صحافتی اخلاقیات سکھانے سے پہلے کسی لونڈے کے ہاتھ میں قلم یا مائیک پکڑا دیں۔جناب عمران خان نے لوگوں کو بولنے کی آزاد ی نہیں دی بلکہ بندر کے ہاتھ میں ماچس اور استرا تھمادیا ہے۔انہوں نے اپنے پیروکاروں کویہ تعلیم دی ہے کہ جو آپ کے خلاف ہے ،وہ نہ صرف دائرہ اسلام سے خارج ہے بلکہ غدار،ملک دشمن ،کرپٹ اور بے ضمیر انسان ہے۔آپ اس پر لعن طعن کریں ،جہاں دکھائی دے ،جملے کسیں یا برا بھلا کہیں ،آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے ۔ہمارے ہاں بچپن سے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ پہلے تولو پھر بولومگر طفلان انقلاب کو بتایا گیا ہے کہ سوچنے کی زحمت کئے بغیر جو منہ میں آئے بولتے چلے جائو ۔ہوتا یہ ہے کہ کسی محفل میں اگر ایک انصافیا بھی گھس جائے تو وہ سب پر غالب آجاتا ہے کیونکہ شرکا کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو ذہنی و اخلاقی پستی کی اس سطح پر جاکر گالم گلوچ کریں اور بدمزگی ہو یا پھر خاموشی اختیار کرتے ہوئے نظر انداز کریں ۔جب جواب دینے سے گریز کیا جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے ان بونوں کی تعدادبہت بڑھ گئی ہے۔سوشل میڈیا پر تو صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔اختلاف رائے کی جسارت کرنے والوں پر تو غلیظ گالیوں کی بوچھاڑ ہوجاتی ہے ،ان سے اتفاق کرنے والے بھی شر سے محفوظ نہیں رہ پاتے ۔پڑھنے اور سننے والے بتاتے ہیں کہ ہم اس خوف سے اپنی رائے کا اظہار نہیں کرپاتے کہ ’’بھونکنے کی آزادی‘‘پر یقین رکھنے والے کہیں اس طرف نہ آنکلیں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم