عوام دوست سیاسی گھرانہ

 اس ملک میں کم ایسے سیاسی گھرانے ہیں کہ جن سے تعلق رکھنے والے بعض  افراد کو ہر سیاسی پارٹی الیکشن میں اپنی پارٹی کا ٹکٹ دینا چاہتی ہے اور اس کی بنیادی  وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے  سیاسی حلقوں میں ہر دلعزیز  ہیں اور ان کی دلعزیزی کی بنیادی وجہ یہ ہے انکا سیاسی ریکارڈ داغدار نہیں ہے وہ ماضی میں جب بھی کبھی اقتدار کا حصہ رہے تو انہوں نے کسی ناجائز کام کے ذریعے دھن نہیں بنایا اور اپنے اپنے حلقوں میں رہنے والے لوگوں کے مسائل کو حل کیا اس قسم کے لوگوں کو الیکشن لڑنے کیلئے ٹکٹ حاصل کرنے کے واسطے کسی سیاسی پارٹی کے قائد کی منت سماجت نہیں کرنی پڑتی بلکہ ہر سیاسی پارٹی کے قائد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس کی پارٹی کے ٹکٹ پر ہی  الیکشن لڑیں اسی قسم کا ایک سیاسی گھرانہ خیبر پختون خوا میں بھی موجود ہے جو سیاسی حلقوں میں سیف اللہ فیملی کے نام سے مشہور ہے اور جس کے چشم و چراغ میں ہمایوں سیف اللہ خان انور سیف اللہ خان اور سلیم سیف اللہ خان کے نام قابل ذکر ہیں‘ ان سب کی اپنے اپنے حلقوں کے عوام کے لوگوں کیلئے سماجی خدمات ضرب المثل ہیں ان کے سیاسی حلقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ  ان کے اخلاق خلوص  اور ان کی بے لوث خدمات کیلئے ان کو اپنے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ان کے والد محترم بیرسٹر سیف اللہ خان بھی اپنے وقتوں میں ایک عوامی لیڈر رہے ہیں‘ ان تینوں شخصیات کی قدرے مشترک یہ ہے کہ یہ سب غریب پرور ہیں‘ماضی میں جب کبھی بھی ان کو  ایوان اقتدار میں پہنچ کر عوام کی خدمت کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں عوامی فلاح و بہبود کے کئی ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا‘ ذاتی سطح پر بھی وہ عوامی فلاح و بہبود کے لئے کئی ادارے چلا رہے ہیں ان کی خوبی یہ ہے کہ ان سے غریب کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے جاتے‘ ان کی کردار سازی میں ان کی والدہ ماجدہ کلثوم بی بی کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے‘ اگر اس قسم کے غریب پرور افراد اس ملک میں ایوان اقتدار کا حصہ بن جائیں تو اس ملک کی تقدیر ہی بدل جائے اس جملہ معترضہ کے بعد وزیراعظم کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران اقوام متحدہ میں سرگرمیوں کا ذکر ہو جائے تو بے جا نہ ہوگا انہوں نے نہایت موثر انداز میں دنیا کے تمام ممالک کے سربراہان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں سیلابوں نے جو تباہ کاریاں کی ہیں ان کے نقصانات کا ہمارے لئے تن تنہا ازالہ کرنا ناممکن ہوگا اور اس ضمن میں دنیا کے دیگر ممالک کو کھل کر پاکستان کی مدد کرنا ہو گی‘ غالب امکان ہے کہ کئی ممالک پاکستان کی مالی امداد کھل کر کریں گے‘ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بیرونی امداد کا درست استعمال کیا جائے جس کیلئے مانیٹرنگ کا ایک فول پروف میکینزم وضع کرنا ضروری ہوگا یہ امر خوش آئند ہے کہ عالمی بنک سیلاب سے متعلق 1.7 بلین ڈالر کی امداد فراہم کرنیکا ارادہ رکھتا ہے‘ایشیائی ترقیاتی بنک نے بھی پاکستان کے واسطے دس کروڑ ڈالرز قرض کی منظوری دے دی ہے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج