تحریر:سلمان احمد قریشی
سوشل میڈیا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے بھی زیادہ تیزی سے مقبول ہوا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عوام کا سوشل میڈیا سے منسلک ہونا اور آسان دسترس ہے۔ اس جدید میڈیا میں خبروں اور معلومات کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ معلومات کا ذخیرہ آپ تک خود بخود بذریعہ ای میل اور انٹرنیٹ بلاگ پوسٹس پہنچ جاتا ہے۔آپ کو صرف کسی بھی بلاگ یا سائٹ میں اندراج کی ضرورت ہے۔ ایک چھوٹی سے چھوٹی خبر کو مقبول کرنے کے لئے کسی بھی سوشل سائٹ میں صرف ایک پوسٹ شیئر کرنے کی ضرورت ہے پھر یہ خود بخود ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد تک پہنچ جائے گی۔سوشل میڈیا کے استعمال میں روز بروز اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے بلکہ اب تو یہ عالم ہے کہ کسی بھی واقعہ کی خبر، ویڈیو یا تصویر منٹوں نہیں، سیکنڈوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے اور منفی یا مثبت ہر طرح اثر انداز ہونے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
آج کے دور کا اہم ترین مسئلہ معلومات کی قلت نہیں بلکہ بے پناہ معلومات ہیں۔اس عہد میں میڈیا کا سب سے بڑا استعمال ذہن سازی اور مخصوص مقاصد کے لئے کیا جاتا ہے۔خبریت کیساتھ پروپیگنڈہ بامِ عروج پر ہے۔میڈیا کے شوروغل نے سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل بنا دی ہے۔آج میدانِ سیاست میں نظریہ کی جگہ شخصیات اہم ہیں۔عدم برداشت، گالی گلوچ الزام تراشی کا چلن عام ہے۔سیاسی نظریات یا پارٹی پروگرام پر بات کرنے کی بجائے ذاتیات پر حملے عام ہیں۔بعض افراد اچھی چیزوں پر بھی اپنا خبث باطن عیاں کرنے سے باز نہیں آتے۔شکل، شخصیت اور انداز کا مذاق اڑاتے ہیں۔بہتان،الزام تراشی کرتے ہیں یہاں تک کے شخصیات اور اداروں کے خلاف منظم مہم چلاتے ہیں۔ہر اس خبر کو سچ مانا جاتا ہے جو اپنے ذہن کو قبول ہو۔سوچ من پسند لیڈر کے گرد ہی گھومتی ہے۔حقائق کوجاننے کی خواہش اور تحقیق ضروری نہیں سمجھی جاتی۔پارٹی لیڈر کے ایک ٹویٹ یا بیان کو سچ کی سند مل جاتی ہے۔ایسے ماحول میں عام عوام اور پارٹی کارکنان کا باہمی دست و گربیان ہونا فطری امر ہے۔
قارئین کرام! قوم زوال پذیر اس وقت ہوتی ہے جب عدم برداشت اور رویے تہذیب و شائشتگی اخلاق و کردار اور صبر و عمل سے عاری ہو جاتے ہیں لہجوں، تحریروں اور عمل میں نفرت چھلکتی ہے۔ تعمیری سوچ کے بجائے تخریبی سرگرمیاں محور بن جاتی ہیں۔ ہم آج ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔معاشرہ اس وقت عدم برداشت اور سیاسی و معاشرتی اخلاقی اقدار سے عاری ہوتا جا رہا ہے لوگوں کے رویوں میں صبر و تحمل اور قوت برداشت نہیں ہے رویوں میں شدت پسندی اور عدم برداشت اس حد تک غالب آچکے ہیں کہ ہمارے رویوں اور اخلاقی اقدار کی گراوٹ کے باعث احترام آدمیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کریں یا اس سے انکار لیکن یہ سچ ہے کہ میدانِ سیاست میں پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل نے تمام سیاسی جماعتوں کو چاروں شانے چِت کر دیا ہے۔ایک کرکٹر سوشل میڈیا کے ذریعے مقبول لیڈر عمران خان کی صورت میں آج سب کے لیے چیلنج ہے۔لاکھ اختلاف کے باوجود مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے اپنا بیانیہ قائم کر کے دوسرے مخالف بیانیے کمزور کردئیے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری جدوجہد کی تاریخ ہے۔قربانیاں شہادتیں عوامی خدمت سب کچھ ہے لیکن آج عمران خان سے مقابلہ میں اپنا موقف بیان کرنے میں پیچھے ہیں۔مسلم لیگ (ن)سرمایہ داروں ریاستی اداروں کی حمایت حاصل کرنے کے باوجود آج اپنی بہترین میڈیا مینجمنٹ سمیت مشکل میں ہے۔سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے ورکرز سب جماعتوں سے زیادہ متحرک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے چیر مین عمران خان دیگر تمام ہم عصر سیاستدانوں سے آگے ہیں۔ اس مقبولیت کے پیچھے پی ٹی آئی کی حکومتی کارکرگی نہیں صرف سوشل میڈیا کا جِن ہے۔
تمام سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا سے ہمقدم ہوتے ہوئے اس بے قابو جن سے دوستی کرنا ہوگی۔ میڈیا کو اپنی معاشرت وسیاسی روایات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے۔ میڈیا سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے۔میڈیا پر پابندی یا دیگر اقدامات سے یہ جن قابو نہیں آ سکتا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے سوشل میڈیا کے بہتر استعمال کے لیے تنظیمی سطح پر متحرک ہونے کا فیصلہ کیا اور ڈویژن کی سطح پر میڈیا کانفرنس کا آغاز کیا۔اس سلسلہ میں پی پی پی ساہیوال ڈویژن کے زیرِ اہتمام اوکاڑہ،پاکپتن،ساہیوال کے عہدیداران کے لیے ساہیوال پریس کلب میں میڈیا کانفرنس منعقد ہوئی۔جس کے مہمانِ خصوصی شہزاد سعید چیمہ سیکرٹری اطلاعات پی پی پی سنٹرل پنجاب تھے۔ اس موقع پر مقامی صحافی اور راقم الحروف بھی موجود تھے۔شہزاد سعید چیمہ کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی سیاسی کارکن اس میدان میں اتریں تو مکمل تیاری سے اپنے عقل و فہم کو بروئے کار لاتے ہوئے سوشل میڈیا کو استعمال کریں، اور پاکستان کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں۔یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس کو راقم الحروف نے سطورِ بالا میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ سوشل میڈیا پہ ملنے والی کسی بھی خبر کو بغیر تصدیق کے آگے مت پھیلائیں۔ایک پوسٹ یا خبر کا تعلق ہماری قوم کی ذہنی نشوونما سے ہے اور اپنے ملک کی بقا کے لیے اپنا کردار ادا کرنے سے ہے۔ ملک و قوم کی حفاظت کرنا ہم سب پہ فرض ہے جس سے کوئی بھی بری الزمہ نہیں ہو سکتا۔سوشل میڈیا کا بہتر استعمال سب کے حق میں ہے۔سیاسی کامیابی دائمی نہیں ہوتی لیکن ملک و قوم کے نقصان کا ازالہ آسان نہیں۔ مکمل احتیاط کریں کہ ہم اس منفی پروپیگنڈہ مہم کا حصہ نہ بنیں۔ مخالفت کے بھی کچھ اصول ہیں اور حب الوطنی تو سب سے اہم ہے۔
سیاست میں کامیابی اپنے نظریے اور کردار سے حاصل کرنے کی کوشش کریں کسی کو نیچا دکھانے یا تذلیل کو مقصد نہ بنائیں۔دل توڑنے والے نہیں، تقسیم در تقسیم کرنے والے کی بجائے جوڑنے والے بنیں۔یہی وقت کا تقاضہ ہے۔جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنان کی تربیت کا بیڑہ اٹھایا ہے تمام جماعتوں پر فرض ہے کہ وہ بھی اپنے کارکنان کی تربیت کریں۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی طوفانِ بدتمیزی اور جھوٹ کو پھیلانے کی حوصلہ شکنی کریں۔ موجودہ چلن سے ممکن ہے وقتی کامیابی تو حاصل ہو جائے مگر دائمی کامیابی ممکن نہیں۔ معاشرے کو بچانا ہے تو سوشل میڈیا کے احوال اور اصلاح پر فی الفور توجہ دینا ہو گی۔