زوال پذیر عالمی نظام

دوسری جنگ عظیم میں فتح حاصل کرنے کیلئے طاقتور ممالک نے اپنی تمام تر اقتصادی‘ صنعتی اور سائنسی صلاحیتوں کو استعمال کیاتھا مؤرخین کے مطابق اس عالمی جنگ میں تیس ممالک سے سو ملین افراد نے حصہ لیا تھا یکم ستمبر 1939 سے 2 ستمبر  1945تک جاری رہنے والی اس جنگ میں 80 سے 85ملین افراد ہلاک ہوے تھے اس جنگ کے خاتمے سے پہلے ہی مغربی ممالک نے ایک ایسے نئے عالمی نظام کی ضرورت کو محسوس کیا تھا جو انسانیت کو تیسری جنگ عظیم کے خطرے سے محفوظ رکھ سکے اس نئے نظام کی تشکیل کے لئے امریکی ریاست نیو ہیمپ شائر کے ماؤنٹ واشنگٹن ہوٹل میں یکم جولائی1944 کو ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا اسے Bretton Woods Conference کہا جاتا ہے اسمیں چوالیس ممالک کے 730مندوبین نے حصہ لیا تھااسے United Nations Monetary and Financial Conference بھی کہا جاتا ہے اس کا مقصد یہ تھا کہ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے فوراّّ بعد ایک ایسا نظام تشکیل دیا جائے جو امن قائم کرنے کے علاوہ تیسری جنگ عظیم کا تدارک بھی کر سکے اس کانفرنس میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی بنیاد رکھی گئی تھی آج اس کانفرنس کے 78 سال بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ اسکا وضع کردہ نظام نہ صرف زوال پذیر ہے بلکہ اسکی شکستگی نے دنیا کو ایک نئی عالمی جنگ کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا ہے.

اسوقت سات ماہ پہلے شروع ہونیوالی یوکرین جنگ کی وجہ سے پھیلنے والی معاشی بد حالی اور تیل اور گیس کی کمیابی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے لاطینی امریکہ سے لیکر یورپ‘  افریقہ‘ مشرق وسطیٰ اور ایشیا تک کوئی خطہ اس تباہی سے محفوظ نہیں اقوام متحدہ کی Global Distribution Of Household Wealth کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دس فیصد سرمایہ دار 85 فیصددولت پر قابض ہیں باقی کے نوے فی صد صرف پندرہ فیصد دولت پر گذارہ کر رہے ہیں اب خوشحال ممالک سرگوشیوں میں یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ عدم مساوات 1944 کی بریٹن ووڈ کانفرنس کی پیدا کردہ ہے اب کیونکہ پسماندہ اقوام اس نظام سے بیزار آ چکی ہیں اور چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں بھی انکے ساتھ کھڑی ہیں اسلئے پرانے عالمی نظام کو بدلنے کی بات ہو رہی ہے اقوام متحدہ کے Development Programکی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ دو سالوں میں 180ممالک تعلیم‘ صحت اور معیار زندگی کے اعتبار سے تنزلی کا شکار ہوے ہیں عالمی سرمائے کا چند ہاتھوں میں ارتکاز اور عدم مساوات کو اس بد حالی کی اہم وجوہات بتایا گیا ہے۔بریٹن ووڈ کانفرنس کے وضع کردہ عالمی نظام کی چولیں تو کورونا وائرس نے ہلا دی تھیں.

اس وبا میں ساڑھے چھ ملین سے زیادہ لوگ ہلاک ہوے تھے اسکی بڑی وجہ پسماندہ ممالک میں ویکسین کی عدم دستیابی تھی اس ہلاکت خیزی نے غریب ممالک کی معاشی بدحالی میں اضافہ کرنے کے علاوہ عالمی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایااس وبا کے پھیلنے سے پہلے ہی 2009میں خوشحال ممالک نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ہر سال ایک سو ارب ڈالر پسماندہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے دیں گے اس فیصلے پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا۔پاکستان میں سیلاب کی ہولناک تباہ کاریوں کی خبریں عالمی میڈیا پر گردش تو کر رہی ہیں مگر ابھی تک بمشکل تمام چند سو ملین ڈالر کی امداد دینے کے اعلانات کئے گئے ہیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیریز  نے چند روز پہلے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا اس کے بعد عالمی میڈیا نے تسلیم کیا تھا کہ نقصانات کا تخمینہ تیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے مگر اس ماحولیاتی تباہی کے ذمہ دار ممالک ابھی تک اپنا حصہ ادا کرنے سے کترا رہے ہیں موجودہ عالمی نظام کو تخلیق کرتے وقت یہ کہا گیا تھا کہ امریکہ اور یورپ پھر کبھی معاشی بدحالی کو اتنا نہیں بڑھنے دیں گے کہ اقوام عالم کی اکثریت تنہائی اور محرومی کا شکار ہو کر ایکمرتبہ پھر قوم پرستی اور فاشزم کو قبول کر لے اب امریکہ میں بھی دولت کے ارتکاز کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے فیڈرل ریزرو بیورو کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق 2021میں مالدار ترین ایک فیصد گھرانے ملک کی 32.3فیصد دولت پر قابض ہیں اس رپورٹ کے مطابق امریکہ میں معاشی عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اسکی وجہ سے پاپولزم اور فاشزم کے رحجانات کو تقویت مل رہی ہے صدر بائیڈن نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی امریکہ کی بقا کی جنگ بن چکی ہے .

چند روز پہلے فلاڈلفیا میں صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ This is a battle for the soul of the nation اس تقریر میں صدر امریکہ نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ دنیا بھر میں جمہوریت کوشدید خطرات لاحق ہیں اس تقریر کے بعد امریکی میڈیا میں جمہوریت کے زوال کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ پرانے عالمی نظام نے دنیا کو دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے ایک طرف لینے والے اور دوسری طرف دینے والے کھڑے ہیں Creditors دے رہے ہیں اور Debtorsلے رہے ہیں دنیا جیتنے اور ہارنے والوں میں تقسیم ہو چکی ہے  اب اس سسکتے ہوے عالمی نظام کو شہنشاہیت کا نیا چہرہ کہا جا رہا ہے اب 1940کی دہائی کی طرح ایک مرتبہ پھر انسانی عظمت اور وقار کی باتیں ہو رہی ہیں اس نو دریافت شدہ انسان دوستی کی ایک وجہ یہ خوف بھی ہے کہ اب کسی نئی وبائی مرض کا مقابلہ کرنے کی سکت خوشحال ممالک میں بھی نہیں ہے اسلئے یہ ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ پسماندہ ممالک کو وبائی امراض اور ماحولیاتی تباہی کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جائے یہ چہ میگوئییاں کس حد تک قابل عمل ہیں اسکا اندازہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ہو جائیگا اس جلاس میں اب تک زیادہ تر زور بیان روس کو یوکرین جنگ کاذمہ دار ٹھرانے پر صرف کیا جا رہا ہے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج