93

حکمران ہیں کہ پتھر کے بت۔۔؟

پاکستان میں امور مملکت کی ابتر صورت دیکھ کر کرسٹینا لیمب کی کتاب ویٹنگ فار اللہ یاد آجاتی ہے ۔ برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب اس وقت 21برس کی تھی جب پاکستان آئی اور ایک سال یہاں قیام کیا. محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان میں مارشل لاء کے طویل دور کے بعد اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا حلف اٹھا چکی تھی۔یہ 1989،کا سال تھا جب فنانشل ٹائمز سے وابستہ کرسٹینا پاکستان آئی ۔ اس نے پاکستان میں مقتدرہ کی مداخلت، سیاسی عدم استحکام کمزور ادارے، ناقص پالیسیوں، بیوروکریسی کے سرخ فیتے اور اداروں میں نا انصافی کے ماحول میں پستے ہوئے عوام کا مشاہدہ کیا اور ان مشاہدات پر مبنی کتاب کا نام ویٹنگ فار اللہ رکھا۔ اس نام سے سے خیال سمیوئیل بیکٹ کے ڈرامے ویٹنگ فار گوڈ کی طرف جاتا ہے جو تھیٹر آف آبسرڈ کا ایک نمائندہ ڈرامہ ہے۔ پاکستان میں بھی ہمہ وقت تھیٹر آف ابسر ڈ لگا رہتا ہے۔بے معنی باتوں پر ایک ہنگام کی صورت رہتی ہے جب کہ بنیادی مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔جس کے نتیجے میں ایسے فیصلے ہوتے ہیں جن سے حالات میں سدھار کی بجائے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ زندگی کے جس شعبے کو اٹھا لیں آپ کو یہی تصویر نظر آئے گی۔جہاں کوئی سسٹم موجود نہیں ہوتا وہاں بغیر کسی تیاری اور کسی لائحہ عمل کے بڑے بڑے فیصلے کر لیے جاتے ہیں پھر عوام کو انہیں بھگتنا پڑتا ہے۔ یکساں نصاب کا فیصلہ تحریک انصاف نے اپنی حکومت میں کیا ۔اس سرکاری حکم کے بعد وہ اس کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ ہم نے ملک میں یکساں نصاب کر دیا لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ بھاری فیسیں لینے والے انگلش میڈیم سرکاری نصاب کی کتابیں پڑھانے کے لیے تیار نہیں ۔ بھاری فیسیں لے کر انہوں نے اسی معیار پراپنے نصاب ڈیزائن کیے ہیں۔ یکساں نصاب کے فیصلے کے بعد گورنمنٹ کی طرف سے آکسفورڈ پریس کو این او سی نہیں مل رہا تھا ۔کتابیں شائع نہیں ہوئیں۔ بچے سکول جانے لگے۔ تین مہینے گزر گئے اور وہ کتابوں کے بغیر ورک شیٹس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اسکی وجہ یکساں نصاب کا فیصلہ ہے جسے بغیر سوچے سمجھے مسلط کردیا گیا یہ فیصلہ ویسے بھی قابل عمل نہیں کیونکہ جب بچوں کے معاشی اور سماجی پس منظر یکساں نہیں تو وہ کس طرح ایک نصاب پڑھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے فیصلے کرنے اور بنیادی مسائل کو توجہ دے کر کوئی واضح پالیسی نہ بنانے والے ملکوں میں پھر وہی ہوتا ہے جو یہاں ہورہا ہے کہ آئے روز نئے بحران سر اٹھاتے رہتے ہیں۔جتنا عرصہ سے میں پاکستان میں کار سیاست و حکومت کو دیکھ رہی ہوں میری یادداشت میں نہیں کہ اس حوالے سے کسی قومی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ پاکستان کا سنجیدہ مسئلہ یہ ہے کہ اس پر بات کرنے کا رواج نہیں۔ یہ پاکستان کے معاشرے میں ایسے موضوعات ہیں جو بکتے نہیں۔پاکستان میں آٹے کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے اور روٹی کی قیمت میں اضافہ غریب کی جیب پر بہت بھاری پڑ رہا ہے۔کہنے کو پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور آٹا 22 کروڑ عوام کی بنیادی غذائی ضرورت ہے جسے ایک امیر سے لے کر غریب تک استعمال کرتا ہے۔ یہ کسی بھی صورت لگژری آئٹم نہیں بلکہ بنیادی ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک عام پاکستانی 60 فیصد کیلوریز گندم سے حاصل کرتا ہے۔ان لوگوں کو روٹی کے ساتھ پھل اور دیگر چیزیں بھی میسر ہوتی ہیں جبکہ غریب آدمی نے صرف روٹی سے پیٹ بھرنا ہوتا ہے اور روٹی ہی اس کی پہنچ سے دور کردی گئی ہے۔ ایک عام روٹی کی قیمت 20 روپے ہوگئی ہے۔پاکستان کو بنے ہوئے 75 برس ہو چکے ہیں اگر ان برسوں میں صرف اس مسئلہ کی طرف توجہ دے لی جاتی کہ گندم میں پاکستان خود کفیل ہوتا۔زرخیز مٹی ،بہترین موسم کے باوجود ہم نے اپنے اس بنیادی مسئلہ کے حل پر توجہ نہیں دی زرعی ملک ہونے کا خود مذاق اڑایا۔اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ یہاں وقتاً فوقتاً آٹے جیسی بنیادی ضرورت کا بحران پیدا ہوتا رہا ہے۔ مشرف کے دور میں بھی آٹے کا شدید بحران پیدا ہوا تھا ۔اتوار بازاروں میں لوگ لمبی قطاروں میں لگ کے آٹا خریدتے ۔2020 میں بھی آٹے کا شدید بحران پیدا ہوا تھا جب خیبر پختونخوا میں روٹی ملنا بند ہوگئی تھی۔حکمران خبر لیں، پاکستانی عوام کی آٹے اور روٹی جیسی بنیادی ضرورت کے پیچھے خوار ہورہے ہیں ۔ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے حکمران ان مسائل اور مجبوریوں سے بے خبر سیاست اور حکومت فرماتے رہیں۔آخر دھکے تو عوام ہی کو کھانے پڑتے ہیں۔غریب اور متوسط طبقہ تو رل گیا ہے۔ بجلی کے ہولناک بلوں نے پہلے ہی عام آدمی کی زندگی ڈروانا خواب بنادی ہے اوپر سے پیٹ بھرنے کو روٹی جیسی بنیادی چیز بھی جیب پر بھاری پڑنے لگے تو لوگ کہاں جائیں؟ کہا جارہا ہے کہ روس یوکرین جنگ پاکستان میں آٹے کے بحران کی وجہ ہے۔ پاکستان یوکرین سے گندم منگوانے والے ملکوں میں شامل ہے۔ شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ زرعی ملک ہوتے ہوئے پاکستان اپنی ضرورت کی گندم خود پیدا نہیں کر سکتا۔ہمارا ہمسایہ ملک بھارت میں اپنی ضرورت سے زیادہ گندم پیدا کر سکتا ہے تو ہمیں کون روکتا ہے۔ماضی میں بھی ہم امریکہ سے گندم منگواتے رہے ہیں اب پھر یہی خبریں ہیں کہ اگر یوکرین سے گندم نہ آسکی تو پاکستان کو آسٹریلیا اور امریکا سے گندم درآمد کرنی پڑے گی اس پر زیادہ لاگت آئے گی۔جسں روٹی اور آٹے کی قیمت بڑھے گی۔ بجلی کے ہوشربا بل اور اب آٹا پہنچ سے باہر۔۔لگتا ہے کہ اس ملک میں حکمرانوں کی صورت پتھر کے بت بٹھا رکھے ہیں جنہیں اندازہ نہیں کہ عام آدمی پر کیا گزر رہی ہے آج دو دہائیوں سے زیادہ ہو چکا 21سالہ کرسٹینا بھی جوانی سے ادھیڑ عمری کی دہلیز پر کھڑی ہے مگر افسوس کے پاکستان میں حالات کا قبلہ درست نہ ہو سکا۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز