125

کابل کہانی : تین تنقیدی سوال

افغانستان کے حوالے سے ہر ایک کے ذہن میں پہلاسوال یہی آتا ہے کہ کیا طالبان افغانستان میں مستحکم حکومت قائم کر چکے ہیں، ان کی گورننس کیسی ہے؟ اس پر اپنے پچھلے دونوں کالموں میں بات ہوئی۔ سروائیول کی جنگ کے بعد اگلے تین سوال بہت اہم اور بنیادی ہونے کے ساتھ تنقیدی نوعیت کے بھی ہیں۔ افغان طالبان پر ان تینوں حوالوں سے خاصی تنقید ہوتی ہے۔طالبان ترجمان کوشش کرتے ہیں کہ اس حوالے سے اپنا جامع بیانیہ دیں، مگر اس پرحرف زنی کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ پہلا سوال کثیر القومی حکومت یعنی Inclusive Govt کا ہے۔ طالبان نے جب افغانستان میں اقتدار سنبھالا تو تب سے امریکہ، یورپی ممالک اور دیگر عالمی قوتیں ان پر زور دے رہی ہیں کہ وہ اپنی عبوری حکومت میں تاجک، ازبک، ہزارہ آبادی کی نمائندہ قوتوں کو شامل کریں۔، مغربی ممالک یہ چاہتے تھے کہ طالبان اپنے ساتھ سابق کرزئی، اشرف غنی حکومت میں شامل رہنے والے اہم تاجک، ازبک ، ہزارہ لیڈروں کو بھی جگہ دیں۔ ایسی صورت میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا عندیہ بھی دیاگیا۔ یہاں برسبیل تذکرہ دو باتیں بھی سمجھ لی جائیں۔ ایک تو یہ کہ طالبان کی موجودہ حکومت عبوری حکومت ہے۔ خود طالبان امیر مولانا ہبت اللہ کے بیان کے مطابق یہ عبوری حکومت ہے، تاہم طالبان نے یہ واضح نہیں کیا کہ عبوری حکومت کب ختم ہوگی، اگلی مستقل حکومت کب بنے گی اور کس طرح ؟ کون سا ایسا نظام حکومت ہوگا، جس کے تحت اگلی حکومت بنے گی اور چلائی جائے گی۔ دوسرا یہ کہ افغانستان میں صدیوں سے پشتون ہی حکمران رہے ہیں ۔ امریکی دور میں بھی حامد کرزئی اور اشرف غنی صدر رہے، دونوں پشتون ہیں۔ اگرچہ پشتون ملک میں غالب اکثریت نہیں رکھتے، اس بارے میں مختلف اندازے اور رپورٹیں موجود ہیں، بعض کے مطابق پشتون چالیس سے پچاس فیصد ہیں، بعض اس میں تھوڑی کمی بیشی کر دیتے ہیں۔ دوسری بڑی نسلی آبادی تاجک بیان کی جاتی ہے جو پندرہ سے بیس یا پچیس فیصد تک ہیں۔ ازبک بھی دس سے بیس فیصد تک ہیں، ہزارہ نسبتاً کم ہیں، اگرچہ ان کا دعویٰ بھی دس بارہ فیصد ہونے کا ہے۔ تین چار فیصد ترکمان ،کچھ کوچی(خانہ بدوش)اور ایک دو فیصد بلوچ بھی ہیں۔ اس بارے میں چونکہ مستند اعداد وشمارموجود نہیں، اس لئے تھوڑا بہت اوپر نیچے ہوسکتا ہے، اس کی رعایت دیجئے گا۔ طالبان سے مطالبہ یہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ چلیں پشتونوں کی نمائندگی خود کریں، مگر تاجک آبادی کی نمائندگی کے لئے عبداللہ عبداللہ یا دیگر تاجک رہنمائوں کو جگہ دیں، احمد شاہ مسعود کے دو بھائی اور ان کا بیٹا احمد مسعود بھی تاجک نمائندگی کا دعوے دار ہے۔ ازبک آبادی کے نمائندہ دو مشہور وار لارڈ جنرل دوستم جسے آخری دنوں میں مارشل کا خطاب دے دیا گیا تھا اور استاد عطا محمد نور ہیں۔شیعہ ہزارہ آبادی کے اہم لیڈر استاد محقق ہیں جبکہ ہرات میں سابق گورنر اسماعیل خان بھی اہم لیڈر ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ طالبان پچھلے بیس سال انہی لوگوں سے لڑتے رہے ہیں۔ انہی تاجک ، ازبک، ہزارہ لیڈروں کی گردنوں پر ہزاروں طالبان اور لاکھوں افغانیوں کا خون ہے۔ دوستم تو طالبان پر اپنے بے پناہ ظلم وستم توڑنے کی وجہ سے بہت بدنام رہا ہے، اسی طرح حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور ان کے تاجک لیڈر امراللہ صالح، حمداللہ محب وغیرہ ہمیشہ طالبان کے خلاف سرگرم رہے ۔ طالبان نے اپنی طرف سے کثیر القومی حکومت بنانے کی کوشش کی اور کچھ ازبک، تاجک کمانڈروں کو جگہ دی، بعض مقامی تاجر اور پڑھے لکھے لوگ بھی شامل کئے۔۔اس وقت حکومت کے بعض بہت اہم لوگوں میں ازبک، تاجک شامل ہیں، ہزارہ بھی معمولی حدتک اکاموڈیٹ ہوئے، مگر یہ سب وہ لوگ ہیں جو طالبان کے ساتھ تھے یا ان کے ہم خیال ۔ طالبان کثیر البنیاد حکومت کی تجویز رد کر چکے ہیں ، ان کے پاس اپنے دلائل ہیں۔ طالبان کہتے ہیں کہ کیا آپ کے ہاں عمران خان اور نواز شریف اکھٹے بیٹھ سکتے ہیں؟ طالبان نے بعض ٹیکنوکریٹس کو بھی حکومت میں جگہ دی ہے۔ ایک سکالر سے ہم ملے، وہ ایک نجی یونیورسٹی کے بانی ہیں اور اس وقت طالبان حکومت میں ڈپٹی منسٹر ہیں، مگر اس وزارت میں چونکہ وزیر موجود نہیں، اس لئے وہ مکمل خودمختار ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق امریکہ اور یورپ خواہ کچھ بھی کہتا رہے، طالبان کسی بھی صورت میں ان کے مطلب کی کثیر القومی یا کثیر البنیاد حکومت نہیں بنائیں گے۔ وہ اپنی پسند سے تو کچھ لوگ شامل کر لیں گے، مگر سابق حکومتوں کے اہم وزرا، رہنمائوں کا شامل ہونا خارج از امکان ہے۔ دراصل طالبان کو اپنی صفوں کے اندر موجود جذبات کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ایک افغان صحافی کے مطابق حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ جیسوں کو طالبان نے کچھ نہیں کہا اور وہ آرام سے کابل میں اپنے وسیع وعریض گھروں میں رہ رہے ہیں تو یہ طالبان کی برداشت اورتحمل کی انتہا ہے، ا س سے زیادہ توقع نہ کی جائے۔ ویسے بھی پہلا سال دبائو کا تھا، ممکن ہے تب دبائو کے پیش نظر ایسا کر لیا جاتا۔ اب تو وہ دبائو سے نکل آئے ہیں۔ دوسرا اہم ترین سوال بچیوں کی تعلیم کا ہے۔ اس وقت کابل کی صورتحال یہ ہے کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعلیم جاری ہے۔ کابل یونیورسٹی میں لڑکیوں کی اچھی خاصی تعداد ہے، وہ یونیورسٹی جا رہی ہیں، عبایہ میں ملبوس ہونا شائد کوئی شرط ہے یا پھر افغان کلچر، مگر یہ ماڈرن قسم کے عبایہ ہیں، ترکوں جیسے۔ اس ضمن میں دلچسپ کام یہ ہوا کہ ایک دن کابل یونیورسٹی میں لڑکے پڑھتے ہیں، دوسرے دن لڑکیاں۔ اس طرح ہفتے میں تین دن لڑکیاں یونیورسٹی جاتی ہیں، تین دن لڑکے۔ افغانستان میں جمعہ کو سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ افغانستان کی دیگر سرکاری یونیورسٹیوں میں بھی یہی حال ہے۔ گرلز پرائمری سکول بھی کھلے ہیں ، بچیاں روزانہ سکول جاتی ہیں۔ البتہ اس وقت چھٹی سے بارویں جماعت تک گرلز مڈل اینڈ سکینڈری سکولز وغیرہ بند ہیں۔ طالبان رہنمائوں سے اس بارے میں سوال پوچھا جائے تو وہ واضح انکار نہیں کرتے ، ان کے مطابق اس کا میکنزم بن رہا ہے، جلد کچھ ہوجائے گاوغیرہ وغیرہ۔ بہرحال چھٹی سے بارویں جماعت تک بچیوں کو تعلیم سے سردست روکنا ایک ایسا فیصلہ ہے جس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں ایک اور بات بتانا ضروری ہے کہ یہ سب پابندی سرکاری سکولوں، یونیورسٹیوں پر ہے۔ نجی یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم جاری ہے۔ خود ہم نے ایک معروف نجی یونیورسٹی کے سیمنار میں شرکت کی، اس میں مجھے بھی تقریر کا موقع ملا، سامنے بیٹھے لوگوں میں لڑکیاں بھی تھیں اور لڑکے بھی۔ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ نجی مڈل سکینڈری سکولز میں چھٹی سے بارویں کی تعلیم اپنے طور پر چل رہی ہے، طالبان نے انہیں منع نہیں کیا۔ مجھے بعض مقامی افغانوں نے بتایا کہ شمالی صوبوں بلخ، بدخشان وغیرہ اور ایران سے ملحقہ صوبے ہرات میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں کا ماحول زیادہ کشادگی لئے ہے اور تعلیم کا کلچر قائم ہے۔ اس لئے وہاں پر سرکاری گرلز مڈل ، ہائی سکولز وغیرہ خاموشی سے کھلے ہیں، کوئی انہیں کچھ نہیں کہہ رہا۔میں اسے کنفرم نہیں کر سکا، مگر ایک دو ذرائع نے اس کی تائید کی۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حوالے سے اہم اور متعلقہ ذرائع نے ہمیں یہی بتایا کہ یہ مذاکرات چل رہے ہیں۔ جیسے تیسے سہی، مگر بہرحال مذاکرات کا سلسلہ ٹوٹا نہیں اور باضابطہ طو رپر سیز فائر بھی قائم ہے۔ طالبان حکومت اس معاملے میں سہولت کار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حقانی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، تاہم ایک سفارت کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر صاف لفظوں میں بتایا کہ حقانی اس لئے کر رہے ہیں کہ انہیں امیر المومنین مولانا ہبت اللہ نے یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ یہ بات البتہ ہمیں کئی حلقوں سے بات کر کے اور غیر رسمی گفتگو کے دوران سمجھ آ گئی کہ طالبان حکومت سے مذاکرات کے حوالے سے سہولت کاری اور تعاون سے زیادہ کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستانی سفارتی حلقوں اور اسلام آباد میں کسی نہ کسی حد تک طالبان کی مجبوریوں کا احساس ہے۔ ایک ذمہ دار شخص نے ہمیں بتایا کہ ٹی ٹی پی کے کم از کم چھ ، ساڑھے چھ ہزار تربیت یافتہ جنگجو ہیں، طالبان کیوں اتنی بڑی تعدادکو اپنا مخالف بنالیں؟طالبان اپنے سروائیول کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان کا تمام تر فوکس اپنی حکومت کو مستحکم بنانے میں ہے، وہ مخالف مزاحمتی گروپ این آر ایف کو کمزور کرنا اور داعش کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ٹی ٹی پی کے خلاف جنگ چھیڑ دینا ان کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔ اس لئے وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔ البتہ وہ ٹی ٹی پی کو اپنی سرحد یا سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ ہمار ا تاثر یہ بنا کہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے اگر کچھ کرنا ہے تو وہ ہم نے ہی کرنا ہے۔ مذاکرات کامیاب بنائیں یا اگر آپریشن کی نوبت آئے تو اپنی سرزمین پر ان کے حامیوں کا صفایا کریں یا جو بھی راستہ نکلے، وہ ہمیں ہی نکالنا ہوگا۔ افغان طالبان اس حوالے سے ہمارے لئے نیک تمنائوں کااظہار ہی کر سکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔ البتہ اس معاملے کے ایک دو پہلو ایسے ہیں جو ناقابل اشاعت ہیں، ان پر لکھا جا سکتا ہے نہ کسی پبلک فورم پر ہم بول سکتے ہیں۔ویسے بھی کچھ باتیں سینہ گزٹ ہی میں اچھی لگتی ہیں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز