121

تاریخ کا کوئی اسکرپٹ نہیں ہوتا

ہماری نسل ابھی دونوں ہتھیلیوں سے سیاسی شعور کی ادھ کھلی آنکھیں مل رہی تھی کہ جنرل ضیا الحق آن پہنچے۔ خدا مرحوم کے درجات دستور کے آرٹیکل چھ کی حد تک بلند فرمائے، انہوں نے قوم کے ساتھ جو کیا، سو کیا، ہم پر ایک احسان عظیم فرما گئے۔ انہوں نے ہمیں کم عمری ہی میں آمریت کی پیچ دار اندھیری گلیوں اور مذہب فروش سیاست کے مکر و فریب سے شناسا کر دیا۔ 1977ءمیں پاکستان کی آبادی سوا سات کروڑ تھی۔ ریڈیو اور ٹیلی ویڑن سرکاری نقارچی تھے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات غریب کی وہ بیٹیاں تھیں جو زور آور گھرانے میں بیاہی گئی تھیں۔ کہیں کہیں کسی صحافی کے نوک قلم پر روشنی کی جھلک دکھائی دیتی تو اس کی روشنائی ضبط کر لی جاتی تھی۔ جبر کے مد و جذر پر بہتے ہم لوگ پنجاب یونیورسٹی جا پہنچے جہاں گھڑیال کی سوئیاں 22 ستمبر 1977 ءکی اس سہ پہر پر ٹھہری ہوئی تھیں جب ملک کی قدیم ترین یونیورسٹی نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو ڈاکٹر آف لا کی ڈگری عطا کی تھی۔ گویا دستور ہی کو بارہ صفحات کا دفتر بے معنی قرار دینے والے کو قانون کی عبائے فضیلت پہنائی گئی تھی۔ ہم علم کے اس شمشان گھاٹ میں پہنچے تو 80 کی دہائی کا وسط آن لگا تھا۔ قہر آلود سناٹے میں ایک کنج سے علم کی بیراگن شائستہ سونو کی آواز ابھی سنائی دیتی تھی جو ’زندگی کی تفہیم اور اقتدار کی تحکیم‘ کو ادب کا منصب قرار دیتی تھی۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جدید انگریزی شاعری اور ڈرامے کی تدریس کا بھاری پتھر شائستہ سونو نے اٹھا رکھا تھا۔ قدیم ادبیات کی سطروں سے جھانکتے سیاسی اور تمدنی سوالات پر اساطیر کا پردہ ڈالنا آسان تھا مگر جدید ادب میں یہ سہولت میسر نہیں ہوتی۔ جرمن ادیب تھامس مان نے لکھا تھا۔ ’آج کی دنیا میں انسان کے معانی سیاست سے متعین ہوتے ہیں‘۔ محترمہ شائستہ سونو نے ہمیں ہیرلڈ پنٹر کی تمثیل The Caretaker پڑھائی۔ ابھی ہماری تاریخ میں کیئر ٹیکر حکومت کا غیر جمہوری تصور متعارف نہیں ہوا تھا لیکن ہم اس ڈرامے کے بے گھر کردار Davies کا یہ مکالمہ خوب سمجھتے تھے What about me? ۔ یہ سوال 1947 ء میں لٹے پٹے مہاجروں نے پوچھا تھا اور آج سیلاب سے بے گھر ہونے والے تین کروڑ سے زائد بے دست و پا عوام بھی پوچھ رہے ہیں۔ کھیل کے دوسرے کردار دن کے اجالے میں لندن اور رات کے اندھیرے میں اسلام آباد کے ایوانوں میں ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا موضوع کچھ بھی ہو، ملک کے ایک چوتھائی رقبے پر پھیلی تباہی اور اپنے اثاث البیت سے محروم ہونے والے افتادگان خاک کی بحالی بہرصورت نہیں ہے۔ 2014ءکے موسم گرما میں اس درویش نے اسی ادارتی صفحے پر اسکرپٹ کی اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ آٹھ برس کی اس پاکوبی میں طالب علم نے یہ سیکھا ہے کہ سازش اپنا اسکرین پلے لکھتی ہے لیکن تاریخ کا سکرپٹ اقتدار کے کھلاڑیوں کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ مئی 2014 میں بھی لندن میں کچھ کردار سر جوڑے اپنے تئیں ایک اسکرپٹ لکھ رہے تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ ایسے کردار موجودہ منظر کے کچھ مکالمے تو طے کر سکتے ہیں لیکن 2022ءکا ایکٹ لکھنا ان کے ہنر سے ماورا ہے۔ تاریخ کا ا سٹیج بہت بڑا ہے اس میں کرداروں کی آمد اور رخصت کا وقت طے نہیں ہوتا۔ تمثیل کا رخ متعین کرنے میں اپنا کردار طے کرنا فرد کی اپنی ذمہ داری ہے۔ یہی دیکھئے کہ 27دسمبر 2007 ءکو بے نظیر بھٹو شہید نہ کی جاتیں تو آج ملک کا سیاسی منظر کیا ہوتا۔ 11فروری 2018ء کو عاصمہ جہانگیر اچانک رخصت نہ ہوتیں تو انصاف کے ایوانوں میں عدل گستری کے رنگ کیا ہوتے؟ شیکسپیئر کے کردار میکبتھ نے لیڈی ہیکبتھ کی موت کی خبر سن کر کہا تھا Out out, brief candle۔ شیکسپیئر کا اشارہ بے نظیر بھٹو اور عاصمہ جہانگیر کی طرف نہیں تھا۔ وہ توغالباً ان دفاعی تجزیہ کاروں کا ذکر کر رہا تھا جو محنت سے تحصیل کردہ بلند بانگ لہجے کے زور پر ہمیں سیاست اور صحافت کے نکات سمجھاتے رہے مگر دو ہی برس میں عالم یہ ہے کہ اب کہیں کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ تاریخ مگر سوال کرتی ہے کہ وہ ایک پیج کیا ہوا جس پہ ہماری تاریخ کا اسکر پٹ لکھا تھا ؟ وہ ہائبرڈ بندوبست کیا ہوا جس کے ترانے جیا بگا کے موسیقار مرتب کرتے تھے۔ پانچویں نسل کی ابلاغیاتی جنگ کیا ہوئی جس کے پرچم تلے ناپسندیدہ صحافیوں کی تصاویر کی نمائش کی جاتی تھی۔ آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند۔

1930ء میں لندن کے ایک درزی کے ہاں پیدا ہونے والا ہیرلڈ پنٹر زندگی بھر اقتدار کی سیاست اور جبر کی حرکیات بیان کرتا رہا۔ وہ ہر طرح کے جبر اور تشدد کا مخالف تھا۔ اس نے سرد جنگ میں سرمایہ دار بلاک کی مخالفت کی۔ 1991ءاور پھر 2003 میں عراق پر چڑھائی کی مذمت کی۔ یوگوسلاویہ میں نیٹو کی بمباری اور 2001ءمیں افغانستان پر امریکی حملے کا ناقد تھا۔ پنٹر اشتراکی بلاک کے استبداد کا حامی نہیں تھا۔ اس کا موقف تھا کہ لکھنے والا اپنے منصب سے تبھی انصاف کر سکتا ہے جب وہ اپنے معاشرے اور اپنے گروہ میں موجود ناانصافی پر آواز اٹھانے کی ہمت رکھتا ہو۔ ہیرلڈ پنٹر کا بہت ہی معروف کھیل The Birthday Party ہے۔ پیٹے اور اس کی بیوی ایک بوڑھا جوڑا ہیں جن کے ہاں سٹینلے نامی پیانو نواز کرائے دار کے طور پر ٹھہرا ہوا ہے۔ سٹینلے کی سالگرہ کی رات اچانک دو اجنبی گھر میں گھس آتے ہیں اور سٹینلے کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ ہیرلڈ پنٹر تفصیل بیان نہیں کرتا۔ اس کا ہنر اس کے مکالموں کی رمزیت میں ملتا ہے۔ نووارد اجنبی سٹینلے کو لے کر باہر نکل رہے ہیں تو پیٹے صرف ایک جملہ کہتا ہے Stan, don't let them tell you what to do! ۔ صحافی کا بھی یہی منصب ہے کہ ہدایت نامے کی پروا کئے بغیر درون خانہ لکھے گئے مکالمے افشا کرتا رہے تاکہ آنے والی نسلوں کو خبر ہو کہ تاریخ کا کوئی اسکرپٹ نہیں ہوتا۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم