108

عرضی بحضور فیض گنجور

بحضور فیض گنجور امریکہ بہادر دائم اقبالہ‘!

بعد ضروری سلام و آداب کے عرض ہے کہ حضورنے وہ تصویریں‘ ویڈیو اور خبریں دیکھ لی ہونگی جو شنگھائی کانفرنس منعقدہ سمرقند درازبکستان کی میڈیا پر مسلسل آرہی ہیں۔ حضور نے ملاحظہ فرما لیا ہوگا کہ پاکستان کی ’’امپورٹڈ‘‘ حکومت کے وزیراعظم نے وہاں کیسے روس ،چین ،ایران، ترکی اور ازبکستان کے سربراہان سے پینگیں بڑھائی ہیں بلکہ جھولے جھولے ہیں اور کیسے ان حکمرانوں نے ایک خطرناک سازش کے تحت امپورٹڈ وزیراعظم کی پذیرائی کی ہے اور طرح طرح کی پیشکشیں پاکستان کو دی ہیں اور پھر زخموں پر نمک چھڑکنے کیلئے کیسے امپورٹڈ وزیراعظم کو ’’آئوٹ آف دی وے‘‘ جا کر اہمیت دینے کی نامسعود حرکات کی ہیں۔ یہاں تک کہ ازبکستان کے وزیراعظم تو خود امٹورٹڈ وزیراعظم کے استقبال کو سمر قند ایئرپورٹ پر پہنچے حالانکہ کسی ڈپٹی کمشنر یا پروٹوکول افسر کو بھی ایئرپورٹ بھیج کر مناسب استقبال بھی کیا جاتا رہا جیسا کہ ماضی میں ان تمام ممالک کے حکمرانوں نے ہمارے حقیقی آزادی والے ہیرو کے باب میں کیا جب وہ وزیراعظم کے طورپر ان ملکوں میں پہنچے تھے۔

 

حضور فیض گنجور ،آپ نے ہمارے حقیقی آزادی کے ہیرو کی حکومت کا تختہ محض اس لئے الٹ دیا کہ وہ روس کے ساتھ پینگیں بڑھانے کا سوچ رہے تھے۔ یہاں تو یہ پینگیں بڑھ کر حدود ہائے سرخ کو بھی عبور کر چکیں۔ مقام عبرت تو یہ ہے کہ روس کی گیس پائپ لائن پاکستان لانے کیلئے ترکی نے بھی ہاتھ بٹانے کا اعلان کر دیا ہے۔ حضور فیض گنجور کے علم میں اچھی طرح ہوگا کہ موجودہ امپورٹڈ وزیراعظم کے بھائی نے جب وہ چھ سات برس پہلے جعلی وزیراعظم کے طورپر ملک پر مسلط تھے‘ یہ پائپ لائن شروع کروائی تھی اور دو سال کے دوران کام خطرناک تیزی کے ساتھ آگے بڑھ چکا تھا کہ پھر ہماری حکومت آگئی اور ہم نے اس میر جعفرانہ منصوبے کو بریک لگا دی اور کامل چار سال یہ بریک لگی رہی۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ امپورٹڈ وزیراعظم کا یہ بھائی 35 پنکچر لگا کر حکومت میں آیا تھا جس کے بعد ہم نے ڈیم والے بابا جی سے مل کر یہ ناہنجار حکومت ختم کرائی تھی۔ حضور کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ 35 پنکچر والی اس ناہنجار حکومت نے چین سے مل کر سی پیک کا سازشی منصوبہ بھی شروع کیا تھا اور اسے آگے بڑھایا تھا۔ ہم نے ڈیم والے بابا سے مل کر اس ناہنجار حکومت کا جب خاتمہ کیا تو اس سازشی سی پیک کا مکو بھی اچھی طرح ٹھپ ڈالا تھا اور ہمارے ہی اس طرح ٹھپ ڈالنے سے یہ منصوبہ ٹھپ ہو گیا اور آج اس کی ساری سکیموں پر الو بولتے اور سیار بھونکتے ہیں۔ آپ نے بھی تشویش کے ساتھ یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ اب ایک بار پھر اس ہلاکت خیز منصوبے پر سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے اور صاف صفائی کا کام جاری ہے۔ شدید خطرہ ہے کہ اس پر پھر سے کام نہ شروع ہو جائے اور ہماری 22 سالہ جمع چار سالہ محنت پر پانی نہ پھر جائے۔

 

تو حضور فیض گنجور، عرض مدعا یہ ہے کہ ہم نے پینگیں بڑھانے کا تو محض سوچا ہی تھا کہ آپ نے ایک سائفربھیج کر ہماری حکومت کا تختہ بذریعہ عدم اعتماد الٹ ڈالا تھا اور اس کیلئے مقامی میر جعفر‘ میر صادق حضرات کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اب تو بات بہت بڑھ گئی ہے ‘ لیکن آپ کی طرف سے ہنوز کوئی سائفر نہیں آیا اور ہم نے اس سے قبل بھی داد فریاد کی تھی لیکن آپ نے مناسب توجہ نہیں کی۔ بس ہماری پختونخوا والی حکومت کو چند درجن گاڑیاں تحفے میں دیکر ہمیں ٹرخا ڈالا۔

 حضور فیض گنجور‘ وقت ہمارے اور ہمارے ہیرو کے ہاتھ سے بسرعت  تمام نکلا جا رہا ہے۔ معاملے کی سنگینی تقاضاکرتی ہے کہ ایک نہیںدو دو سائفر ارسال کئے جائیں اور اس امپورٹڈ حکومت سے نجات دلائی جائے۔ یہ کام ہم خود بھی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے‘ لیکن سخت مجبوری یہ آپڑی ہے کہ عوام ہمارے جلسوں میں تو آتے ہیں‘ لیکن جب انہیں انقلاب برپا کرنے کی کال دی جاتی ہے تو وہ گھروں سے نکلنا گوارا ہی نہیں کرتے۔ لانگ مارچ کی لائیوکوریج اپنے ڈرائنگ اوربیڈروموں  میں بیٹھ کر دیکھتے اور اس دوران برگر پیزا کھانے‘ کولڈ ڈرنک کی بوتلیں پینے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آپ نے ہماری ساری قربانیاں فراموش کر دیں۔ خاص طور سے وہ قربانی جو ہم نے صدر ٹرمپ کے دور میں ان کے روبرو بیٹھ کر وائٹ ہائوس میں سابق مقبوضہ اور حال مصنومہ کشمیر کے بارے میں دی تھی اور اس 80 سالہ دیرینہ مسئلہ حل کرکے آپ کی مشکل بھی حل کر دی تھی۔ علاوہ ازیں ہماری خدمات اور بھی بہت سی ہیں‘ لیکن ان کا ذکر اس لیے غیر ضروری ہے کہ آپ سب جانتے ہی ہیں۔

 

حضور فیض گنجور‘ تھوڑے لکھے کو بہت جانیے اور جلد از جلد دو عدد سائفر بھیج کر یہ عذاب ختم کیجئے۔ پانچ ماہ سے صبر کرتے ہوچلے اور اس دوران سینکڑوں گھونٹ سخت کڑوے اس صبر کے بھر چکے اور ہمیں لگتا ہے کہ اب زیادہ دیر تک ہم صبر نہیں کر سکیں گے اور بہت جلدہمیں ایک اور عرضی سائفر بھیجنے کیلئے آپ کی خدمت میں گزارنا ہوگی۔

فقط آپ کی عنایت کی بے تابانہ منتظر

مجلس برائے حقیقی آزادی

 

ایک ’’ہائی پروفائل ملاقات‘‘ آج سے ڈیڑھ ماہ پہلے ایوان صدر میں ہوئی تھی۔ یعنی اگست کے پہلے ہفتے میں۔ تین حضرات شریک تھے۔ براہ راست اس کی خبر چھپی نہ نشر ہوئی‘ لیکن بعض ٹی وی پروگراموں میں شرکائے پروگرام اس کا ذکر کرتے رہے اور یہ بھی بتاتے رہے کہ جلد انتخابات کا مطالبہ مسترد کر دیا گیا ہے۔ پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ اب ڈیڑھ ماہ بعد محترم سیاستدان نے ایک چینل پر بیٹھ کر یہ خبر پھر بریک کر دی اور سننے والوں کو لگا کہ شاید حال ہی میں یہ ملاقات ہوئی ہے۔ دو موجودہ اور ایک سابق کی اس ملاقات کو ’’انقلاب پسند‘‘ میڈیا والوں نے اسے نئی ظاہر کرنے کی کوشش کی اور تاثر دیا گیاکہ انقلاب ’’نافذ‘‘ ہونے کو ہے۔ جبکہ صورتحال وہی ہے جو اگست کے پہلے ہفتے میں تھی اور نتائج بھی وہی ہیں۔ مزید براں ایک نئی ملاقات کی ہوائی بھی اڑرہی ہے جو محض ہوائی ہی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز