بیروت کا سنہری دور مجھے یاد نہیں مگر میں نے اس سے متعلق تفصیل سے پڑھا ضرورہے۔جیسے میرؔ نے کہا تھا ،دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب ۔ بس کچھ یہی کیفیت بیروت کی بھی تھی ۔ دنیا بھر سے لوگ بیروت تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے ۔فیض احمد فیضؔ بھی جب پہلی بار وہاں گئے تو اس شہر کو دل دے بیٹھے اور پھر وہاں برسوں قیام کیا۔یہ شہر ایک زمانے میں لندن اور پیرس کا مقابلہ کرتا تھا ۔معاشی اور ثقافتی سطح پر پوری دنیا میں اس کی دھوم تھی۔لبنانی گلوکار دنیا بھر میں مشہور تھے ۔بہت سی چیزوں میں یورپ کے بڑے بڑے شہر بیروت سے پیچھے تھے ۔ذوالفقار علی بھٹو کو بھی یہ شہر پسند تھا ۔ان کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو نے اسی شہر میں شادی کی تھی ۔عربی کی کتابوں کی اشاعت کا بھی یہی شہر سب سے بڑامرکز تھا ۔ لبنان کا دار الحکومت تھا بلکہ اب بھی ہے ۔پھر ایک دن کراچی کی طرح اس شہر کو کسی کی نظر لگ گئی بلکہ پورا ملک ہی تباہ ہوگیا ۔ارض ِ لبنان کی انجیروں پر بربادیوں کے داغ کھلنے لگے۔ روشنیوں کے شہر اندھیروں میں ڈوب گئے ،بجلی کی پیدوار رفتہ رفتہ اتنی کم ہوگئی کہ پارلیمان کی کارروائی بھی اندھیرے میں جاری رکھنی پڑی ۔ کھانے پینے کی دکانیں خالی ہوگئیں، ان کے باہر لوگوں کی طویل قطاریں لگنے لگیں ۔یعنی کھانا بھی مشکل سے دستیاب ہونے لگا ۔ اسپتال ادویات سے خالی ہو گئے اور اس وقت تو لبنان کا معاشی بحران انتہائی خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے۔
جمعہ کے روزوہاں بینکوں کی مختلف برانچوں پر عوام نے دھاوا بول دیا۔ملازمین کو یرغمال بنایا اور اپنی اکائونٹس میں پڑی ہوئی رقوم واپس کرنے کا مطالبہ کیا ۔بینکوں نے اس ہنگامہ آرائی کے بعد آئندہ بدھ تک بینک بند رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔اس کی شروعات کچھ ایسے ہوئی کہ جنوبی لبنان کےایک بینک میں ایک اکاونٹ ہولڈر بندوق کے ساتھ داخل ہوا اور ملازمین کو اس وقت تک رہا کرنے سے انکار کر دیا جب تک کہ اسے اس کی بینک میں پھنسی ہوئی رقم تک رسائی نہ دی جائے۔خوفزدہ ملازمین نے فوراً اس کا چیک کیش کر دیا۔مالیاتی اداروں نے مالی بحران کے سبب ایک خاص حد سے زیادہ رقم کی ادائیگی پر پابندی عائد کررکھی تھی جسے عوام نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔لبنانی کرنسی کی قدر 2019کے بعد 95فیصد سے زیادہ گر گئی ہے۔ تجارتی بینکوں نے ملک کے مالیاتی نظام کے خاتمے اور ایک شدید معاشی بحران کے آغاز کے بعد غیر رسمی طور پر اپنے کیپٹل کنٹرولز کو نافذ کر نے کی کوشش کی جس نے لبنان کی دو تہائی آبادی کو بے حال کر دیا ۔ لوگوں نے راتوں رات خود کو اپنے بینک کھاتوں سے لاک آؤٹ پایا اور وہ اپنی بچت تک رسائی حاصل کرنے سے محروم ہو گئے۔ گرتی ہوئی کرنسی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کی زندگی مشکل تر کردی ۔ وہاں کے سیاسی رہنما بین الاقوامی بیل آؤٹ کیلئے درکار ضروری اصلاحات کو نافذ کرنے پر جھگڑتے رہے، مرکزی بینک کے باقی ماندہ ڈالر کے ذخائر تین برسوں کے دوران انتہائی کم گئے ۔پاکستان کی طرح وہاں بھی کئی سیاست دان ’ناجائز ذرائع‘ سے کمائی گئی دولت کو ملک سے باہر منتقل کرنے کے الزام میں زیرِ تفتیش ہیں۔
دوہزار پندرہ میں ایسی ہی صورتحال کا شکار یونان بھی ہوا ۔ تقریباً تین سال تک وہاں اس بات پر پابندی رہی کہ کوئی بھی شخص ساٹھ یورو سے زیادہ رقم بینک سے ایک دن میں نہیں نکال سکتااور اگر آپ نے نہیں نکالے تو وہ دن بھی ضائع ہو گیا۔ دوسرے دن صرف ساٹھ یورو ہی نکال سکیں گے ۔دوہزار اٹھارہ میں یونان کے حالات قدرے بہتر ہوئے اور ماہانہ تین سے پانچ ہزار یورو نکالنے کی اجازت دی۔ میں جب 2019میں یونان گیا تومجھے ایک دوست نے بنایا کہ 2015میں یونان کے بینکوں میں میرے آٹھ لاکھ یورو پڑے تھے مگر مجبور تھا کہ پورامہینہ اٹھارہ سو یورو کے ساتھ گزاروں ۔سری لنکا کی معاشی تباہی تو ابھی کل کی بات ہے کون نہیں جانتا کہ وہاں کیا کیا ہوا۔
میں ملک میں روزبروز روپے کی گرتی ہوئی ساکھ دیکھ کر خوفزدہ ہوتا چلا جارہا ہوں کہ کہیں پاکستان بھی لبنان اور یونان کی طرح معاشی طور پر تباہ نہ ہوجائے۔ یہ دونوں ممالک بھی آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ان دونوں ممالک کے سرکاری مالیاتی ادارے کو سب سے پہلے آئی ایم ایف کی شرط کے سبب خود مختار بنا دیا گیا تھا جیسے پاکستان میں اس وقت اسٹیٹ بنک کی پوزیشن ہے ۔یونان کی بچت اس لئے ہوگئی کہ وہ یورپی یونین میں شامل تھا سو یورپی یونین اسے معیشت کے بلیک ہول سے باہر نکالنے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئی ہے مگر لبنان کے ساتھ کیا ہوتا ہے ؟اس سے متعلق ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اس وقت پاکستان میں آٹے کی قیمت پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین سطح پر ہے۔ یعنی یہاں بھی معیشت کے دریا کاپانی خطرے کےنشان سے اوپر آ چکاہے ۔عمران خان بھی اس خطرے کی نشان دہی کر چکے ہیں، انہوں نے چند روز قبل کہا، ’’میں اپنی قوم کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح ملکی معیشت تیزی سے نیچے جارہی ہے، اگر اس ملک میں سیاسی استحکام نہ آیا تو مجھے خوف ہے کہ معیشت کو گرنے سے بچانا مشکل ہوجائے گا۔پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری بڑھ رہی ہیں جس پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان انتشار کی طرف بڑھ رہا ہے اور سری لنکا جیسے حالات کی طرف جارہا ہے‘‘۔اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم کرے۔