93

سیلاب تو آتے رہتے ہیں، سیلاب کا کیا ہے!

البرٹ ایلن بارلیٹ ایک امریکی سائنس دان تھا ، اُس کا ماننا تھا کہ اِس زمین پر انسان کے لیے سب سے بڑا خطرہ اُس کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے ۔ اِس بات کو اُس نےبے حد دلچسپ تجربے کی مدد سے یوں بیان کیا کہ اگر آپ کسی بیکر میں بیکٹیریا ڈالیں اور وہ ہر ایک منٹ کے بعد دو میں تقسیم ہوجائے ، یعنی پہلے منٹ میں ایک سے دو،دوسرے منٹ میں دو سے چار ،تیسرے منٹ میں چار سے آٹھ اور یوں یہ عمل جاری رہے تو کتنی دیر میں بیکر بیکٹیریاز سے بھر جائے گا۔اُس کا کہنا تھا کہ یہ کام اگر گیارہ بجے شروع ہوگا تو ایک گھنٹے کےبعد بیکر میں بیکٹیریاز کے لئے جگہ نہیں بچے گی یعنی بارہ بجے بیکر بھر جائے گا۔اِس تجربے میں حیران کُن بات یہ نہیں ہےکہ بیکر ایک گھنٹے میں بھر جائے گا، حیرانی کی بات یہ ہے کہ صرف ایک منٹ پہلے تک بیکر نصف بھرا ہوا ہوگا اور بارہ بجنے میں پانچ منٹ پہلے تک بیکرصرف تین فیصد تک بھرا ہوا ہو گا۔سوال یہ ہے کہ اگر ہم اُس بیکر کو زمین اور بیکٹیریا کو انسان تصور کرلیں تو کس لمحے ہمیں ادراک ہوگا کہ خطرہ ہمارے سر پر آن پہنچا ہے ؟ ظاہر ہے کہ پانچ منٹ پہلے تک بھی ہم یہ نہیں جان پائیں گے کہ زمین کو آبادی یا موسمیاتی تبدیلی سے کوئی خطرہ ہے ، کیونکہ پانچ منٹ پہلے تک تو ’بیکر‘ صرف تین فیصد تک بھرا ہو گا اور بارہ بجنے سے ایک منٹ پہلے تک بھی زمین پر نصف سے زیادہ جگہ خالی ہوگی ، تو کیا کوئی اوسط درجے کا انسان اِس خطرے کا اندازہ کر پائے گاکہ یہ زمین اگلے ایک منٹ میں ختم ہوجائے گی ؟ یقینا ًنہیں ۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی، یہ دونوں خطرات ایسے ہی ہیں جن کا ہمیں اندازہ نہیں ہوپارہا۔زمین پر انسان کی آبادی پہلے دن سے ہی لاکھوں کروڑوں میں نہیں تھی ، پہلے یہ فقط چند ہزارتھی ، اسے پہلے ایک ارب تک پہنچنے کے لئے ایک لاکھ سال لگے ،دو ارب تک پہنچنے کے لئے صرف سو سال لگے ،اگلے پچاس برس میں یہ چار ارب ہو گئی ،اور اِس وقت یہ آبادی آٹھ ارب کے قریب ہے ۔اگلے چالیس برس میں زمین پر انسانوں کی تعداد بتیس ارب ہوجائے گی ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگریہ زمین آٹھ ارب انسانوں کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہی تو بتیس ارب انسانوں کا بوجھ کیسے اٹھائے گی؟

آج سے پانچ سال پہلے تک پاکستان میں کوئی ماحولیاتی آلودگی کا لفظ تک نہیں جانتا تھا ،اور دس سال پہلے تو شاید موسمیاتی تبدیلی کی وزارت بھی نہیں تھی ،لیکن کیا فرق پڑتا ہے، مغربی ممالک کے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اِس خطرے کا ادراک نہیں کرپائے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ہم ابھی تک موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے حالتِ انکار میں ہیں ، ہمارا یہ خیال ہے کہ اگر زمین پر درجۂ حرارت ایک آدھ ڈگری بڑھ بھی گیا تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی ، ہم ائیر کنڈیشنر کا تھرمو ا سٹیٹ بیس سے اٹھارہ کردیں گے اور مسئلہ ختم ہوجائے گا۔اسی قسم کی سوچ مغربی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں آج کل بڑے فخرسے خود کو ’ماحول دوست‘ لکھ رہی ہیں۔ یہ مضحکہ خیز دعویٰ ہے کیونکہ سارا سال یہ کمپنیاں کروڑوں اربوں صارفین کے لئے رنگ برنگی مصنوعات بناتی ہیں جن میں کپڑے ، جوتے، میک اَپ، موبائل فون ، فرنیچر، الیکٹرونکس وغیرہ شامل ہیں ، یہ مصنوعات زمین کا خون نچوڑ کر تیار کی جاتی ہیں ، پہلے یہ کام چار ارب انسانوں کے لئے ہوتا تھا اب آٹھ ارب لوگوں کے لئے ہوتا ہے ،اور اِن میں سے بھی اربن مڈل اور اپر کلاس نے ایک جوڑا تین سے چار مرتبہ سے زیادہ نہیں پہننا ہوتا اور کوئی چیز سال چھ مہینےسے زیادہ استعمال نہیں کرنی ہوتی ، لہٰذا یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات پر ’We are Green‘ لکھ کر ہم جیسے صارفین کو مطمئن کردیتی ہیں جس کا حقیقت میں فقط یہ مطلب ہوتا ہےکہ جس ٹرک میں اِن کا مال جاتا ہے وہ پٹرول کی بجائے بجلی سے چلتا ہے ،یوں یہ کمپنیاں اپنا دامن بھی صاف کرلیتی ہیں اور ہمارا ضمیر بھی مطمئن ہوجاتا ہے کہ ہم موحولیاتی آلودگی میں حصہ دار نہیں بن رہے ۔ یہ تمام حالتِ انکار کی مثالیں ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا کو تباہی کے اِس دہانے پر لانےمیں ترقی یافتہ ممالک کی یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور حکومتیں ذمہ دار ہیں جب کہ خمیازہ پاکستان کے غریب عوام بھگت رہے ہیں ۔لیکن یہ بات پاکستان جیسے غریب ممالک تک نہیں رُکے گی، امریکہ اور یورپ بھی موسمیاتی تبدیلی کے عذاب سے نہیں بچ پائیں گےاور یہ سب کچھ ہم اپنی زندگیوں میں دیکھیں گے۔اگلے آٹھ سے دس سال میں ہم مزید گلیشیر پگھلتے ہوئے دیکھیں گے، فصلوں کی تباہی سے دس کروڑ انسان انتہائی غربت کا شکار ہوجائیں گے،سیلاب زدہ ممالک سے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گےاورسطحٔ سمندر بلند ہوتی چلی جائے گی جس سے بے حدتباہ کن طوفان آئیں گے۔ 2050 تک دنیا کی دو ارب سے زائد آبادی ساٹھ ڈگری درجۂ حرارت کی گرمی میں رہنے پر مجبور ہوجائے گی اور یہ گرمی تقریباً سارا سال ہی برداشت کرنی پڑے گی، دنیا میں ہر انسان، کسی بیماری سے بچنے کے لئے نہیں بلکہ اپنے پھیپھڑوں کو ا سموگ سے بچانے کے لئے، ماسک پہننے پر مجبور ہوجائے گا،شمال مشرقی امریکہ میں ہر برس پچیس سیلاب آئیں گے جہاں 2020میں صرف ایک سیلاب آیا تھا، پانی اورخوراک کی کمی اور شدید موسم کی وجہ سے چودہ کروڑ لوگ در بدر ہوجائیں گے۔سن 2100تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت چار ڈگری تک بڑھ جائے گا(واضح رہے کہ یہ صرف ڈیڑھ ڈگری بڑھا تو دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی)، امریکی ریاست فلوریڈا کا نشان مٹ جائے گا،حشرات الارض ختم ہوجائیں گے جس کے نتیجے میں فصلیں تباہ ہوجائیں گی۔

یہ تمام باتیں اپنی جگہ مگرہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں،موسمیاتی تبدیلی ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں،ہمارے لئے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایک بڑے عہدے پر کس کی تعیناتی ہوگی ،یہ تعیناتی کون کرے گا اور کیسے کرے گا؟ ٹاک شوز اِن باتوں پر ہونے چاہئیں ۔سیلاب تو آتے رہتے ہیں ، سیلاب کا کیاہے!

بشکریہ جنگ نیوزکالم