بھیڑ بھاڑ کی صورتِ حال

میں بائیک سواروں کے حق میں بہت لکھتا ہوں۔کیونکہ میں خود بھی موٹر سائیکل چلاتا ہوں۔کیونکہ غریبوں کی جو سواری ہے۔ مجھ پر یار دوست اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اپنی چاند گاڑی کے علاوہ بھی کچھ اور لکھا کریں۔مگر کیا کریں۔ سائنس دانوں والی چاند گاڑی تو خلامیں سفر کرتی ہے۔ہمارا یہ طیارہ بوئنگ سیون زیرو سیون ہوا میں اڑان بھرتا ہے۔اوپرخلا میں تو کوئی نہیں ہوتا اورجہاز چلاتے وقت بھی آسمان میں چیل کووں کے علاوہ سامنے کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن ہماری اڑان تو زمین پر رگڑ کھاتی بلکہ رگڑے کھاتی ہوئی جاتی ہے۔راستے میں ایک نہیں سینکڑوں سامنے آتے ہیں۔ کبھی تو ٹکراتے ہیں کبھی ٹراتے ہیں۔کیونکہ انھوں نے شہر کا ماحول بہت خراب کر دیا ہے۔کچھ کسر جو چھوڑی وہ رکشوں والوں نے پوری کر دی ہے او رباقی کی کسر تو چنگ جی چلانے والوں نے مکمل کردی ہے۔مگر گاہے ان بائیک والوں کے خلاف بھی بہت کچھ لکھتا ہوں۔ کیونکہ میں خود بھی تو اس راہ کا مسافر اسی ریت کے جہاز اونٹ کے ذریعے سڑکوں کے رش میں دوڑتا بھاگتا رہتا ہوں۔رش تو اتنا ہے کہ وہ جو ہمارے جاننے والے ہیں انھوں نے رنگ روڈ سے نکل کر ٹھنڈی کھوئی میں ٹیوشن پڑھانا چھوڑ دیا ہے۔جو وجہ انھوں نے بتلائی وہ یہ بھیڑ بھاڑ ہے جو شہرِ پشاورکے ماتھے پہ کلنگ کا ٹیکہ ہے۔جب ان کے حق میں قلم آرائی کرتا ہوں تو ان کو بے قصور سمجھتا ہوں۔یہ جو کاروں والے ہیں ان کو زیادہ تر دوش دیتا ہوں۔مگر اتفاق کہیں میں بھتیجے کی گاڑی میں بیٹھا۔اچھی خاصی تھی بھاری بھرکم تھی۔مگر اندر سے جو مناظر میں نے دیکھے تو وہ کچھ اور تھے۔ گاڑی کے اندر بیٹھ کر جب کھڑکی کے شیشے سے باہر جھانکتارہاتو جتنے بھی موٹر سائیکلسٹ تھے وہ سب مجھے کیڑے مکوڑے لگ رہے تھے۔ یہاں ہماری گاڑی کے شیشے اندر سے بند تھے۔اسی لئے جو بائیک رائڈر باہر سے ہماری کار کی کسی غلطی پر اعتراض کرتے اور شدیدمذمت کرتے تو ان پر الٹا ہنسی آتی۔لگتا وہ گونگے ہیں اور بول نہیں سکتے مگر اشاروں اور ہونٹوں کی جنبش سے برابھلاکہہ پاتے تھے۔ وہاں مجھ پہ یہ رازکھلا کہ جب ہم خود بائیک پرسوار ہوں تو کاروں والے ہمیں کیوں انسان نہیں سمجھتے۔کیونکہ کار کے اندر کی تمام سیٹیں اسی طرح ہیں کہ جن پر ایک بار بیٹھے تو بار بار بیٹھنے کو جی کرے۔پھر گاڑی کے اندرسے تو باہر کے ماحول میں دکھائی دینے والے عجیب مخلوق دکھائی دینے لگے۔مجال ہے کہ ہم نے کسی ایک موٹر بائیک والے کی پروا ہ تک کی ہو۔ بلکہ ان کو نظرانداز کرکے دائیں بائیں سیر کی غرض سے آرام دہ سیر سپاٹا کرتے رہے۔موٹر سائیکل والوں سے کبھی اس لئے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں کہ ان کامحبوب راستہ فٹ پاتھ رہے جس پر یہ لوگ دوڑتے پھرتے ہیں۔تھوڑا رش ہوا تو یہ جہاز راں بیچوں بیچ سے راستہ نکالتے ہیں اور ضروری نہ بھی ہو تو اپنا راستہ جوچن لیتے ہیں وہ فٹ پاتھ ہوتا ہے۔ حالانکہ فٹ پاتھ پرتو پیدل لوگ چلتے ہیں مگر یہاں توگنگاالٹی بہتی ہے۔یہاں عین سڑک بیچ شہری پیدل رواں دواں ہوتے ہیں اور فٹ پاتھ تو موٹر سائیکل سواروں کے قبضے میں ہوتا ہے۔شہر میں جینا اور زندگی گزارنا اجیرن ہو چکا ہے۔شہرکے ہجوم سے بھلاکون بچ پائے گا۔آخر کسی نہ کسی مقصد کے تحت شہر جائے گا۔کہیں کسی کی خوشی غمی میں جانا تو لازمی ٹھہرے گا۔ یہاں تو رش کے کارن نہ کسی خوشی کامزا ہے اور نہ ہی کسی غم کے موقع پر لواحقین سے تعزیت بھی درست طریق سے ہو پاتی ہے کیونکہ شادیاں تو گیدرنگ ہالوں میں شفٹ ہوگئی ہیں اور میتوں کے جنازوں کے لئے شہرمیں کھلی جگہ دستیاب ہی نہیں ہے۔جنازے ہیں تو عین شہری سڑک کو بند کر کے پڑھائے جاتے ہیں اور اس کام کے لئے مارکیٹوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔شہر میں اوپن جگہ کم سے کم ہو رہی ہے پارک تو جیسے سرے سے ہیں ہی نہیں۔اگر تفریح کا ہنگام بھی ہو تو ریفریش ہونے کے لئے شہرسے باہر تفریح گاہوں میں جاناپڑتا ہے۔کاروالوں کو جو یہ موٹر سائیکل سوار کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں یہ نظارہ کر کے ایک قسم کا دکھ بھی ہوا ان بیچاروں پرترس بھی آیا‘ آج کل تو اس بھیڑ کے ہاتھوں تنگ ہو کر یار دوستوں نے گاڑیاں بیچ کر موٹر سائیکل خرید لئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہے یہی رش ہے۔جیسے جیسے شہر ترقی کی منازل طے کر رہاہے۔ویسے اس کے راستے محدود ہو رہے ہیں۔ایک جگہ جانے کے لئے مختلف اطراف سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں‘چھوٹے موٹے کاموں کے لئے اب گاڑی تو نہیں نکال سکتے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج