868

بڑے منظر نامے کے مزید رُخ

آج کل جب کسی دوست سے بات ہوتی ہے چند سکینڈ کے بعد ایک سوال بار بار سامنے آتا ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور حالات کدھر جا رہے ہیں۔ کیا عمران خان ان حالات پر قابو پا لیں گے اور آگے کا منظر نامہ کیا ہو گا۔ اخبار اور ٹی وی چینل صرف روز کی خبروں پر زور دیتے ہیں مثلاً فلاں کی ضمانت منظور ہو گئی اور فلاں کی نامنظور، یا کون آ رہا ہے یا ملک سے باہر جا رہا ہے۔ہر میڈیا گروپ اپنے پسند کی خبروں کو اہمیت دیتا ہے اور حکومت کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں گناہ کبیرہ بنا کر پیش کی جاتی ہیں اسی طرح کی دو لمبی فون کالیں۔ پچھلے دو دن میں سنیں۔سمجھدار اور پڑے لکھے‘ لکھنے لکھانے والے لوگ تھے مگر نام دینا درست نہیں کہ پھر لوگ بجائے موضوع کے افراد کو زیر تنقید یا اہم بنا دیتے ہیں۔ اہم تین مسئلے کیا ہیں اس حکومت کے اور کس طرح حل کیا جا سکتا ہے ۔ہمارا تقریباً ان تینوں پر اتفاق تھا کہ پچھلے چند ہفتوں میں عمران خان کے لئے اچھی خبریں آئی ہیں اور ان کو ایک معقول موقع پھر مل گیا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو صحیح انتظامی راہ پر ڈال لیں اور جو مصنوعی رکاوٹیں ہیں ان کو بہتر پالیسی اور بہتر لوگوں سے دور کر لیا جائے۔ پہلی رکاوٹ حکومت کی میڈیا کی پالیسی بالکل صاف نظر آئی۔ ظاہر ہے جب سے حکومت نے اربوں روپوں کی میڈیا کو فنڈنگ بند کی ہے اور رشوت کے طور دی گئیں حکومتی اشتہاروں کی بھر مار بند ہوئی ہے میڈیا والے سخت ناراض ہیں۔ ہونا بھی چاہیے مگر آج ’’بیانیوں‘‘ اور ’’تاثر‘‘ یعنی Narratives اورPerceptionsاور اس لڑائی میں حکومت کافی ناکام رہی ہے۔ خود وزیر اعظم سب سے کہتے ہیں کہ میڈیا کے دو گروپ ان کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈا کرتے ہیں اور منفی اور بعض وقت بالکل غلط خبروں کو اس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ حکومت کے اچھے اور قابل تعریف کام بھی دب جاتے ہیں۔ میڈیا سے لڑائی حکومت کے لئے ایک خطرناک پالیسی ہوتی ہے مگر جہاں مخالف پارٹیوں کا حامی میڈیا ہوتا ہے وہیں حکومت کے حامی بھی اکثر جوابی بیانیہ زور شور سے پیش کرتے ہیں اور حکومت پر سے دبائو ہٹاتے ہیں۔ خان صاحب کی میڈیا ٹیم ابھی تک سنبھل نہیں سکی اور کئی لوگ آئے اور چلے گئے جس سے تاثر منفی ہی گیا۔ پھر دو بڑے گروپ اگر حکومت مخالف مہم چلا رہے ہوں تو چھوٹے گروپ مجبوراً اس دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں اور حکومت مزید دبائو میں آ کر وزیر اعظم کو بھی ایسے بیان دینے پڑ جاتے ہیں کہ لوگ نہ اخبار پڑھیں نہ ٹی وی دیکھیں۔ یہ ایک غیر سنجیدہ طریقہ ہے اور میڈیا کو اس طرح رام کرنا مشکل ہے جبکہ کئی میڈیا گروپ پرچھوٹی موٹی قدغن اگر لگا بھی دی جائے توانہیں مزید شور مچانے کا موقع ملتا ہے تو پھر اس کا حل کیا ہوا۔ اتفاق اس بات پر ہوا کہ خان صاحب کو دو چار ایسے میڈیا کے ماہرین کے ساتھ بیٹھ کر ایک قابل عمل پالیسی بنانی چاہیے جن لوگوں کا ذاتی کوئی مفاد نہ ہو۔بے شمار ایسے لوگ مل جائیں گے مگر انہیں خان صاحب تک رسائی نہ ملے گی نہ خان صاحب انہیں جانتے ہوں گے۔ جن لوگوں نے انہیں گھیر رکھا ہے وہ ایسی روزانہ کے جگت بازی کے مقابلوں میں ہی پھنسے رہیں گے اور وہ حکومت اور میڈیا کے بڑوں کو آپس میں تسلی سے بیٹھ کر بات کرنے اور ایک راستہ نکالنے کی کبھی کوشش نہیں کریں گے مگر یہ کام وزیر اعظم کو فوری طور کرنا ہو گا کیونکہ اب انہیں ایک اچھا موقع ملا ہے۔اپوزیشن تتر بتر ہے‘ معیشت پر دبائو ہے لیکن قابو میں آ رہا ہے۔سازشیں ناکام ہو رہی ہیں اور بیرونی حالات کافی بہتر ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے ایک اور موقع دیا ہے‘ صدر ٹرمپ نے بھارت میں پاکستان کیس اچھا لڑا۔افغانستان میں سب سے اچھی خبر ہے اور پاکستان اس صورتحال سے بہترین فائدہ اٹھا سکتا ہے۔مودی کے اسلام دشمن ایجنڈے کی خود بھارت میں شدید مخالفت ہے اور اب اسلحہ کا استعمال بھی شروع ہو گیا ہے ۔مجھے ڈر ہے کہ کشمیر میں بھارت کے ایجنٹ دہشت گردی کر کے پاکستان پر الزام تراشی کریں گے۔ ان حالات میں عمران خان کا رول ایک انتہائی کلیدی ہو گا اور پاکستان کی کوئی خلائی یا زمینی مخلوق اس وقت ملک میں سیاسی بحران اور تبدیلی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ہر ایک کا رول متعین ہے اور سب تیار ہیں، اس لئے کشتی کو اس طرح چلانا ہو گا ۔ دوسرا چیلنج عمران خان کے لئے کیا ہے۔ اگر میڈیا سے ایک مناسب اور باعزت قسم کا ورکنگ سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو انتظامی معاملات ‘مہنگائی اور دیگر روز مرہ کے مسائل لوگوں کی نظروں میں زیادہ نہیں آئیں گے اور پھر دوسرا یہ کہ مستقبل بعید کے مسئلوں کو حل کرنے کا موقع ملے گا ،جیسے عدالتی نظام کو ٹھیک کرنا ۔اس وقت یہ تاثر ہے کہ اپوزیشن خود توجھاگ کی طرح بیٹھ چکی ہے مگر کچھ عدالتی فیصلے عوام میں غلط پیغام دے رہے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ فیصلے غلط ہیں مگر یہ حکومت کا کام ہے کہ جب بھی کوئی کیس عدالت میں جائے وہ اتنا مضبوط اور شواہد پر مبنی ہو کہ کوئی عدالت ملزموں کو رہا نہ کر سکے اور اگر پھر بھی کوئی جج زیادتی کرے تو اس سے اعلیٰ عدالت یہ غلطی درست کر دے۔ اس کے لئے عمران خان کو میڈیا کی ٹیم بنانے کے ساتھ ساتھ ایک تگڑی اور اچھی ساکھ والی عدالتی ٹیم بھی بنانی پڑے گی اور ابھی اس قانونی محاذ پر حالات میڈیا سے بھی زیادہ دگرگوں نظر آتے ہیں۔ ایک مستقل سوال یہ اٹھتا ہے کہ عدالتوں میں کیس نیب لے کر جاتا ہے اور وہاں اگر ہار جائے تو الزام حکومت پر میڈیا اور اپوزیشن کی جانب سے لگتا ہے۔ مگر جب وزیر اعظم یہ اعلان کرتے ہیں’’میں کسی چور کو نہیں چھوڑونگا‘‘ تو ایسا لگتا ہے وہ نیب کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو سراسر غلط تاثر ہے۔ یہ ایک سیاسی ایجنڈا ہے جو بالکل ٹھیک ہے اور دنیا کے ہر ملک میں ہر سیاسی پارٹی یہی کہتی ہے کہ کرپشن کا خاتمہ لازمی ہے تو سیاست کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر چیلنج یہی ہے کہ قانونی اور عدالتی نظام ایسا بنایا جائے جو کسی چور کو پتلی گلی سے نہ نکلنے دے۔ یہ کام عمران خان کے لئے زیادہ دشوار لگ رہا ہے کیونکہ انہیں وقت ہی نہیں مل رہا اور سازشیں ختم ہی نہیں ہو رہیں کہ وہ اصلاحات پر توجہ دیں ۔کئی کام چل بھی رہے ہوں گے مگر کیونکہ میڈیا کی ٹیم اور قانونی ٹیم میں روابط اور مل جل کر چلنے کا رجحان نہیں ہے یہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کیا کھچڑی کہاں پک رہی ہے۔ میڈیا اور سیاست دانوں کے ساتھ ایک ورکنگ ریلیشن شپ ضروری ہے اور خان صاحب کے پاس آج کل وقت ہے کہ وہ ان موضوعات پر زیادہ توجہ دیں۔ ترجمانوں کی ایک لمبی لائن لگانے کے بجائے دو تین بہت قابل اور Credibleلوگ رکھیں جائیں جو جگت بازی کم اور حکومت کی کارکردگی پر ٹھوس بات کریں۔ میڈیا کو سرکس نہ بنائیں اور اگر واقعی میڈیا کا کوئی حصہ زیادتی کرے‘ذاتی گالی گلوچ پر اتر آئے تو قانون موجود ہیں ان کو گھر تک پہنچایا جائے خالی زبانی کلامی فائر نہ کریں۔ مجھے معلوم ہے کہ میڈیا کا کوئی گروپ بالکل اللہ والا نہیں، اکثر کے کیس حکومت کے پاس ہیں صرف سنجیدگی سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرا چیلنج جو عمران خان کو درپیش ہے وہ بھی اب وقت آ گیا ہے کہ کھل کر زیر بحث لایا جائے اور ایک پبلک پالیسی کا اعلان کر دیا جائے تاکہ ادارے اور عوام سمجھ لیں کہ حالات کس کے قابو میں ہیں اور کون رکاوٹ بن رہا ہے۔ یہ چیلنج حکومت اور خلائی مخلوق کے تعلقات ہیں اور لگتا ہے اور سب یہی کہتے ہیں کہ سب ایک صفحے پر ہیں اور کوئی دو رائے نہیں، مگر لوگ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک سلسلہ چلتا ہے حکومت کو ہلانے کا‘دھرنے دیے جاتے ہیں اور یہ کہہ کر کہ ان کے پیچھے خفیہ ہاتھ ہیں اور اجازت دی گئی ہے‘ پھر عدالتوں سے جب پے درپے کیس خارج ہوتے ہیں اور حکومت کی مرضی کے خلاف نواز شریف سب کو ماموں بنا کر شاہانہ جہاز میں بالکل ویسے ہی جیسے وہ سن 2000ء میں سعودی جہاز میں روانہ ہوئے تھے‘ چلے جاتے ہیں، تو محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کے اوپر ہی اوپر کوئی فیصلے کر رہا ہے۔ اب پھر مریم نواز کی باری ہے اور پھر یہی تاثر دیا جا رہا ہے۔ حکومت نے نہ بھیجنے کا دو ٹوک موقف لیا ہے مگر مجھے امید ہے یہ فیصلہ حکومت اور مقتدر اداروں کی مشاورت کے بعد ہوا ہو گا۔ ویسے بھی ان کے جانے نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس وقت فوج اور سب اداروں بشمول عدالتوں کو ایک بیان جاری کرنا چاہیے کہ حکومت کے کام میں کوئی مداخلت نہ کر رہا ہے نہ کرے گا۔سیاست اپنی جگہ مگر ملک کو غیر یقینی کی صورت میں دھکا دینا غلط ہو گا۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز