72

کشمیر کاسیب اب روبہ زوال!

بھارت کی مسلم دشمنی ،مسلمان کش پالیسی، خوف، نفرت اور وحشت کی، جو فصل برسوں پہلے بوئی گئی تھی آج وہ برگ و بار لا رہی ہے۔ اگر کسی کے پاس متاعِ لوح و قلم ہے اور وہ اس ماحول کی عکاسی کرنا چاہتا ہے، تو پھر اسے خونِ جگر میں انگلیاں ڈبونا پڑیںگی۔ یہ ساری رودادِ سفر، جذبوں سے معمور ہے۔ ہر گام پر دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہوتی جاتی ہے۔ چہار سو پھیلے اندھیرے اور کھولتے ہوئے اشتعال کے باعث قلم پر کپکپی طاری ہونا فطری ہے۔ زبانیں بولنے کے لیے بے تاب لیکن دستورِ زبان بندی ایسا کہ ہونٹوں سے لفظ پھسل پھسل کر اپنے معنی ہی کھو دیتے ہیں۔ صدیاں بیت چکی ہیں۔ معلوم تاریخ میں کشمیر اور اہلِ کشمیر کے مقدر میں خوشحالی، آزادی اور امن کے دن بہت تھوڑے گزرے ہیں۔ اغیار نے اس خطہ جنت نظیر پر ظلم و جبر کے وہ قہر نازل کیے کہ ان کے تذکرے سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس وادی گل رنگ کے حسین اور تر دماغ انسانوں سے تاریخ کے کئی ادوار میں مال برداری کا کام لیا گیا ’’بیگاروالے‘‘یعنی بوجھ اٹھانے والے جیسے تضحیک آمیز نام سے انھیں منسوب کیا گیا۔ غلامی در غلامی ، غربت اور افلاس ان پر مسلط کی گئی اور انھیں بزدلی کا طعنہ دیا گیا ۔ انھیں غلامی کا دائمی اسیر سمجھا گیا کہ وہ تو عادتاً غلامی پسند ہیں۔ مگر وقت نے یہ زمانہ بھی دیکھ لیا کہ ایک لاکھ نفوس کی عظیم جانی قربانی،قابض بھارتی فوج کا انسانی آبادیوں کے جلائو گھیرائواور زرعی پیداوار پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ اربوں روپے کا نقصان اٹھانے کے باوجود ملت اسلامیہ کشمیر بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے مطالبے سے انحراف نہیں کر رہے ۔سہ مکھی بھارتی ظلم وجبرکے باعث اسلامیان کشمیر کی معیشت تباہ ہوگئی، تاجر کنگال اور کسان بدحال ہوچکے ہیں جبکہ دستکار بھی کام نہ ہونے کے باعث فارغ ہوکر بیٹھے ہیں۔ فروٹ منڈیوں کی ویرانی، وادی کی پہچان سیب کے باغات کو تباہ کرنے لگی ۔ مقبوضہ وادی میں سیب کا پھل مکمل طور پر تیار ہے مگر بھارت کی مسلمان دشمن پالیسیوں کے باعث اس سیزن میں سیب کی سب سے بڑی منڈی ’ ’سوپور‘‘میں ویرانی چھائی ہوئی ہے جس کے باعث سیب درختوں پر ہی گلنا شروع ہو چکا ہے۔ باغ مالکان اور تاجروں کے مطابق 2014ء میں جب سے مودی بھارت میں برسراقتدار آیا ہے تو مقبوضہ کشمیرکے قصبہ سوپور کی فروٹ منڈی ویران پڑی ہے ۔ سیب کشمیر کی معیشت کی شہ رگ ہے ، اورمقبوضہ کشمیرکی نصف آبادی یعنی45 لاکھ افراد کا روزگار سیب کی پیداوار سے وابستہ ہے ۔ مقبوضہ کشمیرکا سیب جس کی یہاں بے شماراقسام پائی جاتی ہیں نہ صرف اپنے ذائقے ،لذت اور خوشبو کے اعتبار سے کے حوالے سے دنیا میں مشہور ہے بلکہ اس کا تقابل براہ راست امریکہ ، چیلی، چین اور آسٹریلیا کے ساتھ کیاجاتا ہے۔ سرینگر کے شمال میں واقع قصبہ سوپور میں، جو’’ ایپل ٹاون آف ایشیا‘‘ بھی کہلاتا ہے۔جبکہ سری نگرکے جنوب میں قصبہ شوپیان سوپورکے بعد سیب کی پیدوار میں دوسرا سب سے بڑا ایریا ہے ۔کشمیر کے سیب باغات میں درختوں پر مئی کے مہینے میں سیب لگنا شروع ہوجاتا ہے اوراکتوبرکا مہینہ اس کے توڑنے کا سیزن ہوتا ہے۔کشمیرکے سیب کو عالمی سطح تک لے جانے کے لئے سوپورمیں چار سو کنال کے وسیع رقبہ پر پھیلی فروٹ منڈی دوعشرے قبل قائم کی گئی تھی۔ لیکن ملت اسلامیہ کشمیر کے مطالبہ آزادی پر بھارت جان بوجھ کرکشمیرکی سیب کو برباد کر رہا ہے۔بھارت کی وضع کردہ ظالمانہ پالیسیوںکے نتیجے میں کشمیرکے سیب کو دہلی کی منڈی میں اونے پونے بائو خریدگی کے باعث اسلامیان کشمیر سیب کودہلی کی منڈی میں بھیجنے کے بجائے اپنے باغات میں ہی سیب کو سڑ ا رہے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ دہلی کی منڈی میں سیب کو مفت بھیجنے سے بہتر ہے کہ اپنے ہی سیب باغات میں یہ زمین بوس ہوجائے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک کھرب اور 80 ارب پاکستانی روپے مالیت کے سیب تباہ ہو رہے ہیں۔ یہ رقم آزاد کشمیر کے کل سالانہ بجٹ سے 60ارب روپے سے زیادہ ہے۔ ہرسال اگست اورستمبرکے ،مہینوں میں سیب اوردیگر پھل پک جاتے ہیں اورانہی دومہینوں میں اسے درختوں سے اتارکرمنڈیوں میں لایا جاتا ہے۔ مسلسل گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے کشمیرکے باغ مالکان اور بیوپاری کے درمیان ربط ختم ہوچکا ہے۔ اخروٹ ، بادام، زعفران ، قالین ، پیپر ماشی اور شال بافی سے منسلک کاروباری حضرات کے نقصان کا تخمینہ لگانا باقی ہے۔گزشتہ تیس سال سے حالت جنگ میں رہنے والا مقبوضہ کشمیر خوشحال خطہ ہے۔جس کی خوشحالی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے ، جیسے عرض کیا جا چکا ہے کہ وادی میں بھارت کے مختلف علاقوں سے سالانہ4 لاکھ مزدور مارچ سے نومبر تک رزق کمانے کے لئے آتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس کی ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کے شعبہ باغبانی کے مطابق2018ء میںاس صنعت سے 1,956,331 میٹرک ٹن تازہ پھلوں کی پیداوار ہوئی اس کے علاوہ 205,405ٹن خشک میوہ جات کی پیداوار الگ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس صنعت سے تقریبا 6000 کروڑ روپے کا زرمبادلہ ریاست جموں و کشمیر کو آتا ہے جس سے آٹھ لاکھ خاندانوں کے چولھے جلتے رہتے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق 2018 ء میں سیب 1851723 میٹرک ٹن ، ناشپاتی61191 میٹرک ٹن، خوبانی 16156 میٹرک ٹن، آڑو2714 میٹرک ٹن،آلوچہ 7710 میٹرک ٹن، چیری 11789 میٹرک ٹن، انگور 790 میٹرک ٹن، بہی 3710 میٹرک ٹن کے علاوہ کئی دوسرے پھل پیدا ہوئے۔ خشک میوہ جات میں اخروٹ 195066 میٹرک ٹن کے علاوہ بادام اور دیگر میوہ جات باغبانی کی بڑی پیداوار ہیں۔ سری نگر کے اخبار رائزنگ کشمیر کے مطابق بھارت میں سیبوں کی کل پیداوار 27.5 لاکھ میٹرک ٹن ہے جس میں سے 18.5 میٹرک ٹن صرف کشمیر میں ہوئی۔ یعنی کل پیداوار کا ستر فیصد کشمیر میں ہوتا ہے۔کشمیری سیب نہ صرف اندرون ملک بلکہ ساری دنیا کی مارکیٹ میں بھی پسندیدگی کا مقام رکھتے ہیں ۔.

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز