188

آرمی چیف پر عمران خان کے یو ٹرن

شیخ رشید صاحب کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں رابطے بحال ہوگئے ہیں اور عمران خان اب نہ گرفتار ہوں گے اور نہ ہی اُن کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں آرمی چیف جنرل باجوہ کا نام لئے بغیر نئے الیکشن اور نئی حکومت کے آنے تک ان کے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے کی بات کی ہے۔ 

اُنہوں نے ایکسٹینشن کا لفظ تو استعمال نہیں کیا لیکن جو کہا، اُس کا مطلب موجودہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن ہی ہے اور یہی بات فواد چوہدری نے بھی کی۔ میری معلومات کے مطابق آرمی چیف نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے اور مزید ایکسٹینشن نہیں لیں گے لیکن عمران خان صاحب نے آرمی چیف سے متعلق اپنے حالیہ بیانات میں آنے والے آرمی چیف کو بلاوجہ متنازع بنا دیا جو نہ تو فوج کے ادارے کے لئے اچھی بات ہے نہ ہی ملک کے مفاد میں ہے۔

خان صاحب کی منطق کہ موجودہ حکومت نیا آرمی چیف تعینات نہیں کر سکتی، سمجھ سے بالاتر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بھگوڑا‘‘ نواز شریف اور ’’چور‘‘ آصف علی زرداری کیسے نیا آرمی چیف تعینات کرسکتے ہیں حالاں کہ یہ تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے اور موجودہ حکومت اگر قائم رہتی ہے تو شہباز شریف نیا آرمی چیف تعینات کریں گے اور یہی قانونی اور آئینی پوزیشن ہے۔

یہ ممکن نہیں کہ عمران خان صاحب کو یہ اختیار دے دیا جائے یا اُن کے دوبارہ وزیراعظم بننے تک نئے آرمی چیف کی تعیناتی کو مؤخر کردیا جائے۔ وہ آرمی چیف کی میرٹ پر تعیناتی کی بات کرتے ہیں اور شہباز شریف کی طرف سے آرمی چیف کو تعینات کرنے کے مخالف ہیں تو کوئی اُن سے پوچھے کہ پھر نواز شریف کے مقرر کئے گئے موجودہ آرمی چیف کو کیوں ایکسٹینشن دی تھی اور اپنے دور حکومت میں اُن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملاتے رہے۔

اس میں بھی شبہ نہیں کہ کسی زمانے میں عمران خان آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے خلاف ہوتے تھے لیکن اپنی حکومت میں اُنہوں نے اپنے اُس اصولی موقف سے یو ٹرن لیتے ہوئے موجودہ آرمی چیف کو تین سال کے لئے ایکسٹینشن دے دی۔ جنرل باجوہ کی وہ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد خان صاحب نے ایک اور یوٹرن لیا اور جنرل باجوہ کو نہ صرف اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ اُن کا نا ملئے بغیر اُنہیں امریکہ کی رجیم چینج کی مبینہ سازش میں ہینڈلر تک قرار دے ڈالا اور انتہائی خطرناک القابات سے بھی نوازا۔ 

اب خان صاحب نے ایک اور یو ٹرن لیا اور چاہتے ہیں کہ جب تک نئے انتخابات نہیں ہوجاتے، موجودہ آرمی چیف ہی اپنے عہدے پرموجود رہیں۔ یعنی کل تک جس شخص کو وہ میر جعفر، میر صادق ، ہینڈلر ، امریکی سازش کے شراکت دار اور نجانے کیا کیا کچھ کہتے رہے، اب اُسی آرمی چیف کی موجودگی میں وہ نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی نئی حکومت کرے گی۔

اب تو عمران خان سازش کرنے والے امریکہ سے بھی دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں اور اہم امریکیوں سے چپکے چپکے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں، وہ آرمی چیف جس نے اُن کو اقتدار میں لانے کے لئے بہت کچھ کیا، اُن کی حکومت کا ہر طرح سے ساتھ دیا، عمران نے اپنی حکومت جانے پر اُسی آرمی چیف کو ولن بنا لیا اور اب اُسی آرمی چیف کو آئندہ انتخابات اور نئی حکومت کے قیام تک عہدے پر دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ 

یعنی مبینہ سازش کرنے والے ملک سے دوستی چاہتے ہیں اور اس سازش کے مبینہ ہنڈلر کے ساتھ بھی کام کرنے کے خواہاں ہیں لیکن اس مبینہ سازش میں اُن کے مطابق استعمال ہونے والے مہروں، یعنی خان صاحب کے سیاسی مخالفین سے وہ کسی صورت نہ بات کریں گے، نہ اُن سے ہاتھ ملائیں گے۔ 

یہ کیسی سیاست ہے؟ خان صاحب پر فوری الیکشن کا جنون سوار ہے اور کہتے ہیں کہ الیکشن کے ذریعے ہی سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا۔ سینئر صحافی کامران خان نے اپنے حالیہ انٹرویو میں خان صاحب کو بار بار یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ پاکستان کی معیشت کی خاطر بات چیت کرلیں اور آئندہ چھ آٹھ ماہ تک ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے اپنا حصہ ڈالیں اور انتخابات کا انتظار کریں لیکن اُن پر فوری انتخابات کا ایسا جنون سوار ہے کہ وہ کچھ اور سننے کو تیار ہی نہیں۔ 

اُن سے یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت فوری انتخابات کی متحمل نہیں ہوسکتی لیکن اُن کے لئے فوری الیکشن ہی ایک آپشن ہے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ فوری طور پر اقتدار میں واپس آ سکتے ہیں۔ جہاں تک آرمی چیف کی تعیناتی کا تعلق ہے تو میری تمام سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں، ایکسٹینشن کے قانون کو ختم کریں اور آرمی چیف کی میرٹ پر تعیناتی کےلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی طرح جو سب سے سینئر ہو اُسے آرمی چیف بنانے کے فارمولے پر عمل کریں اور ہر صورت میں فوج کو سیاست زدہ ہونے سے بچائیں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم