128

جاپانی دوستوں کے ساتھ

یہ غالباً 1990 کی بات ہے پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج کی ایک تقریب میں ایک خوش رُو مگر بہت مختلف نقوش کا حامل نوجوان نظر آیا جو ہر ایک سے جھک جھک کر مل رہا تھا میںنے برادرم ڈاکٹر سہیل سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو جواب ملا سویمانے، جاپان سے یہاں اُردو پڑھنے آیا ہے اورغلام عباس پر بہت اچھا تھیسس لکھ رہا ہے تھوڑی دیر بعد اس سے ملاقات ہوئی تو اس کی خوب صورت مسکراہٹ، بات بات پر کورنش بجا لانے کے انداز اور اُردو زبان پر غیر ملکی ہونے کے حوالے سے غیر معمولی گرفت نے بہت متاثر کیا وہ دن اور آج کا دن پاکستان اور جاپان کے علاوہ بھی بین الاقوامی اُردو کانفرنسوں میں اُ س سے ملاقات رہتی ہے اور ہر بار اس سے مل کر پہلے سے زیادہ خوشی ہوتی ہے سو جب چند دن قبل برادرم ڈاکٹر ضیا الحسن نے فون پر بتایا کہ سویمانے اور ایک جاپانی استاد اپنے استاد مرغوب حسین طاہر کے ساتھ آرہے ہیں اور ان سے ملاقات کے بہانے 13ستمبر کو ایک مشاعرے کا اہتمام کیا جارہا ہے میں نے فوراً اُستاد ذوقؔ کو یاد کرتے ہوئے شرکت کی حامی بھرلی کہ

اے دوست کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا

بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے

پھر معلوم ہوا کہ ملک میں سیلاب کی صورتِ حال کے پیش نظر مشاعرے کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے جو بلاشبہ ایک بہت معقول اقدام تھا پھر معلوم ہوا کہ اب مشاعرے کی جگہ ایک ملاقات او ر سوال و جواب کی محدود محفل کا اہتمام پنجاب یونیورسٹی کی مرکزی لائبریئری اور اس کے انچار ج ڈاکٹر ہارون عثمانی کے تعاون سے کیا جا رہا ہے کہ اپنے اہم مہمانوں کا یونیورسٹی کے طلبہ سے تعارف کرانا ضروری بھی تھا اور سب کے لیے فائدہ مند بھی لیکن یہ بہت محدود نوعیت کی محفل ہوگی میں نے کہا کہ مجھے سویمانے سے ملنا اور اُسے اپنی نئی کتاب Light of the Shadows کا ایک نسخہ بھی دینا ہے کہ جو میری اب تک کی تمام شاعری کا ایک مبسوط انتخاب ہے سو میں اُسے اور اس کے شریک ِ سفر ساتھی میاں موتو سے ضرور ملنے آؤں گا بہت سے دوستوں کے لیے یہ بات شاید بہت زیادہ چونکا نے والی ہو کہ جاپان میں اُردو کی تعلیم و تدریس کو سوبرس سے زیادہ ہوچکے ہیں کہ یہ کام برٹش انڈیا کے زمانے ہی میں شروع ہوگیا تھا۔

اس وقت جاپان کی تین یونیورسٹیوں میں اُردو پڑھائی جارہی ہے ٹوکیو میں ڈاکٹر ہیروجی کتاوکا کی زیر نگرانی بہت عمدہ کام ہو رہا ہے کہ وہ خود بھی جدیدو قدیم اردو پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں لیکن پاکستان بننے کے بعد وہاں کی اوساکا یونیورسٹی اُردو کے حوالے سے سب سے زیادہ سرگرم ہے اور سویمانے بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اب وہاں بطور صدر شعبہ کام کر رہاہے اس وقت وہاں برادرم ڈاکٹر مرغو ب حسین طاہر سینیئر غیر ملکی اُستاد کے طور پر کام کر رہے ہیں جب کہ اُن سے چند برس قبل برادرم ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے وہاں 24برس تک تدریسی خدمات انجام دی ہیں 2008 میں ایک ادبی پروگرام کے سلسلے میں محمود شام، عطا الحق قاسمی اور مجھے جاپان کا ایک سات روزہ دورہ کرنے کا موقع ملا تھا جس کی مفصل رُوداد میرے سفر نامے ’’چلو جاپان چلتے ہیں‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

 

اُن دنوں وہاں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر فخر الحق نوری تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے ٹوکیو کی دونوں تقاریب بہت اچھی رہیں لیکن اس بار پھر اوساکا والے بازی لے گئے وہاں کے شعبہ اُردو کے طلبہ وطالبات نے بہت سے دلچسپ اور حیران کن آئٹم تیار کررکھے تھے سویمانے اُن دنوں شوگر کی وجہ سے کسی پیچیدگی میں مبتلا ہونے کے باعث بہت زیادہ موٹے ہو رہے تھے اور خاصی تکلیف میں بھی تھے مگر جس وارفتگی، محنت اور محبت سے انھوں نے ہمارے وفد کا استقبال کیا اور اپنی مخصوص خوب صورت مسکراہٹ کو ایک لمحے کے لیے بھی کم نہیں ہو نے دیا اس سے وہ اور بھی دل کے قریب ہوگئے ۔

 

پنجاب یونیورسٹی لائبریئری کے زیر اہتمام ہونے والی اس حالیہ ملاقات میں وہ بیماری سے نجات پاکر کنپٹیوں کے سفید بالوں سے قطعِ نظر واپس پہلے والا سویمانے بن چکا تھا میزبانوں کے مختصر خطابات کے بعد جب مہمانوںکو دعوتِ کلام دی گئی تو یہ جان کر ایک عجیب حیرت آمیز خوشی ہوئی کہ میاں موتو آئے تو شعبہ اُردو کی طرف سے تھے مگر ان کا اصل تعارف ان کی تاریخ سے محبت تھی انھوںنے بتایا کہ ا س ضمن میں انھیں مولانا جعفر تھانیسری کا ’’کالا پانی‘‘سے متعلق سفرنامہ پڑھنے کا موقع ملا تو انھوں نے ا س موضوع پر مزید تحقیق کے ساتھ مولانا کی مطبوعہ کتاب کے مختلف ایڈیشنز دیکھنے کا موقع ملا جن کے متن میں بہت سی تبدیلیاں سامنے آئیں۔

 

’’کالا پانی ‘‘ کے ہی حوالے سے اُن کے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے سویمانے نے بتایا کہ شروع شروع میں ان قیدیوں پر بے حد ظلم روا رکھا جاتا تھا مگر کچھ عرصہ بعد عالمی یا اندرونی دباؤ کی وجہ سے حالات بدلنا شروع ہوئے اور برٹش حکومت کی طرف سے وہاں ڈاکٹر،استاد اور دیگر سہولت کار بھی بھیجے جانے لگے لیکن انصاف اور تبدیلی کا ایک بالکل نیا معیار بھی وضع ہوگیا کہ جو لوگ برٹش حکومت سے معافی مانگ کر اس کے ساتھ مل گئے انھیں صحت مند اور اچھے لوگ قرار دیا گیا جب کہ باقیوں کے سا تھ معاملہ مختلف رہا۔مختصر شعری محفل میں میاں موتو نے ایک جاپانی شاعرہ کی جاپانی نظم کا اُردو ترجمہ سویمانے کی نسبت بہت اٹک اٹک کرسنایا امگر اس  کے باوجود نظم کے موضوع نے سب کو متاثر کیا ہاں میاں موتو کے حوالے سے یگانہ کا یہ شعر ضرور یاد آیا کہ

بات ادھوری مگر اثر دُونا

اچھی لکنت زبان میں آئی

سویمانے کی ساری باتیں ہی اچھی تھیں مگر امریکینوں کے بارے میں جاپانیوں کے ردِعمل کے بارے میں اُن کی یہ بات بہت ہی دل کو لگی کہ ترقی کا راز ماضی کے ماتم میں نہیں بلکہ آگے کی طرف دیکھنے میں ہے اور یہ کہ جاپانی قوم کی تمام تر غیر معمولی ترقی  ان کی اپنی زبان میں ہوئی ہے۔

بشکریہ ایکسپرس