قدیم ترین نشریاتی ادارہ

بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ریڈیو پاکستان پشاور اس ملک کا قدیم ترین نشریاتی ادارہ ہے اور اس کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ یہ 1930 کی بات ہے کہ جب اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر گرفتھ نے اس کا افتتاح کیا۔ ابتداء میں پشاور سیکرٹریٹ کی پرانی عمارت کے ایک کمرے میں ایک چھوٹا سا ٹرانسمیٹر نصب کر کے اس ریڈیو سٹیشن کو چالو کیا گیا۔اس کمرے کو قومی ورثہ قرار دے کے محفوظ کرنا چاہئے تھا پر آج نہ اس کا نشان باقی ہے اور نہ سیکرٹریٹ کی پرانی عمارت کا، جس وقت اس ریڈیو سٹیشن کا افتتاح کیا گیا تو متعلقہ حکام نے 30ریسیوننگ سیٹس بھی علاقے کے بڑے بڑے خوانین کے حجروں میں لگائے، جہاں ارد گرد کے لوگ شام کو اکھٹے ہوتے اور اس سے نشر ہونے والے پروگرام سنتے۔ اس وقت اسلم خٹک اس ریڈیو سٹیشن کے انچارج تھے اور معروف مغنیہ ناہید نیازی کے والد سرور نیازی اس کے شعبہ موسیقی کے انچارج تھے۔

 پشاور کے ریڈیو سٹیشن کے ساتھ کئی معروف ادبی شخصیات منسلک رہیں جن میں احمد ندیم قاسمی،محسن احسان، خاطر غزنوی، فارغ بخاری اور زیڈ اے بخاری کے نام قابل ذکر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ریڈیو کے موجد مارکونی نے پشاور ریڈیو سٹیشن کے لئے ایک ٹرانسمیٹر تحفے کے طور پر 1930 میں دیا تھا جو کچھ عرصے پہلے تک نصب تھا کیا اس کو قومی ورثہ قرار دے کر متعلقہ حکام کو سنبھالنا نہیں چاہئے تھا۔ یہ ریڈیو سٹیشن ایک لمبے عرصے تک اس عمارت میں کام کرتا رہا کہ جس کو بعد میں عدالت عظمی کی رجسٹری برانچ کے حوالے کر دیا گیا۔اب ایک اورمسئلے کی طرف آتے ہیں۔ جہاں انسانوں نے اپنے ہاتھو ں ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر اپنے لئے زمین کو ناقابل رہائش بنا دیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہوا کا معیار اور آب و ہوا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کیونکہ ہوا کے معیار کو پست کرنے والے کیمیکلز اکثر مضر صحت گرین ہاؤس گیسوں کے ساتھ خارج ہوتے ہیں۔

 جب جنگلات یا فوسل ایندھن کو جلایا جاتا ہے تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ ساتھ نائٹروجن آکسائیڈ بھی خارج کرتے ہیں جو سورج کی روشنی کے ساتھ رد عمل کرکے نقصان دہ اوزون اور نائٹریٹ ایروسول بنا سکتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ 2015 سے 2021  کے درمیان مختص عالمی سرکاری امداد کے بجٹ کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ دنیا بھر میں بیرونی فضائی آلودگی سے نمٹنے کے منصوبوں کے لیے وقف کیا گیا تھا۔ فضائی آلودگی سے نمٹنے والے لندن میں قائم ایک غیر سرکاری اداراے کلین ایئر فنڈ کے مطابق ان منصوبوں میں چار گنا زیادہ رقم خرچ کی گئی جو فوسل ایندھن کے استعمال کو طول دیتے ہیں۔کلین ائیر فنڈ کی طرف سے جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک کو 2015 سے 2021 کے درمیان فضائی آلودگی کے لیے صرف 0.3 فیصد ترقیاتی امداد ملی، باوجود اس کے کہ ہوا کا ناقص معیار ایچ آئی وی/ ایڈز کے بعد براعظم افریقہ میں بسنے والوں کا دوسرا سب سے بڑا قاتل ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ جو کچھ ترقی یافتہ ممالک بو رہے ہیں انہیں ترقی پذیر ممالک کو کاٹنا پڑرہا ہے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج