کیا عمران خان 2010 کی طرح پھر نکلیں گے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے؟
تباہی آئی تو پچھلی بار بھی تھی مگر تب ہماری معیشت ایسی لنگڑی لولی نہیں تھی، تب سیاست میں ایسی بے یقینی نہیں تھی اور تب سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دنیا بھر سے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے عمران خان بھی متحرک تھے۔ (تصویر: عفت قریشی)
آج سے 12 برس قبل بھی پاکستانیوں نے ایک سیلاب بھگتا تھا۔ یہ جولائی 2010 میں ہونے والی بارشیں تھیں جو مسلسل کئی دن جاری رہی تھیں یہاں تک کہ ملک کے لگ بھگ چاروں ہی صوبے سیلاب کی لپیٹ میں آئے تھے۔
تباہی آئی تو پچھلی بار بھی تھی مگر تب ہماری معیشت ایسی لنگڑی لولی نہیں تھی، تب سیاست میں ایسی بے یقینی نہیں تھی اور تب سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دنیا بھر سے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے عمران خان بھی متحرک تھے۔ اب حالات یکسر مختلف ہیں۔
آج کی تحریر میں ذکر اس عمران خان کا ہے جنہوں نے 12 برس قبل سیلاب زدگان کے لیے ایسی چندہ مہم چلائی تھی جس میں وہ خود کئی کئی روز جاگ کر امداد مہم کو مانیٹر کرتے تھے۔
ناروے کے مرکز اوسلو میں موجود پاکستانی کمیونٹی 2010 کے سیلاب کے بعد اپنے پاکستانی بھائیوں بہنوں کی مدد کرنا چاہتی تھی لیکن باقاعدہ مہم کوئی نہ تھی۔
ایسے میں اوسلو میں پاکستانی نژاد نارویجن صحافی و سماجی کارکن عفت قریشی اور چند ایک نوجوانوں نے مل کر عمران خان کو اوسلو بلانے اور سیلاب زدگان کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی ٹھانی۔
عفت قریشی نے ایک برطانوی اخبار کی سرخی پڑھی تھی کہ عمران خان چندہ جمع کرنے لندن پہنچے تو انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ عمران خان کو اوسلو بھی بلایا جائے تاکہ ہم بھی اپنے ملک کی خدمت میں حصے دار بن جائیں۔
عفت قریشی نے برطانیہ میں رابطے کیے اورعمران خان کی پبلک ریلیشن مینیجر رابعہ کا نمبر حاصل کیا اور انہیں فون کرکے سیلاب زدگان کے لیے چندہ مہم کی درخواست کی۔
عفت قریشی کہتی ہیں کہ ہمارا بڑا نام تھا نہ کوئی سفارش لیکن اگلے ہی دن فون آگیا اور بتایا گیا کہ اگرچہ عمران خان ایک بار پہلے بھی ناروے شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ کے لیے جا چکے ہیں اور ان کا تجربہ اچھا نہیں رہا لیکن اس بار سیلاب زدگان کی مدد کامعاملہ ہے اس لیے وہ صبح سے شام تک صرف چند گھنٹے کے لیے اوسلو آ سکتے ہیں اور تاریخ دی گئی تھی 14 ستمبر کی۔
عفت قریشی اور ان کی دوست انعم چوہدری کے پاس صرف چار دن کا وقت تھا جس میں انہوں نے یہ فنڈ ریزنگ پروگرام ترتیب دیا۔
انہوں نے اوسلو کی پاکستانی کمیونٹی کے نوجوان رضاکاروں کا گروپ بنایا اور ہنگامی بنیاد پہ انتظامات میں لگ گئے۔
عفت قریشی کے بقول: ’ہمیں یہ تو پتا تھا کہ ناروے کے پاکستانی عمران خان کو بہت پسند کرتے ہیں لیکن ہمیں نہیں پتا تھا کہ فنڈ ریزنگ میں کتنے لوگ آئیں گے۔‘
جیسے ہی پاکستانی کمیونٹی میں یہ بات پھیلی کہ عمران خان فنڈ ریزنگ کے لیے اوسلو آرہے ہیں ہمیں ایک عجیب پریشر کا سامنا رہا، بعض اثر و رسوخ رکھنے والے پاکستانی نارویجنز نے چندہ مہم ہائی جیک کرنے کی کوشش کی، بعض نے نمبر بنانے یا سیاست چمکانے کی کوشش کی، بعض عمران خان کے ساتھ صرف ایک تصویر کے خواہاں تھے۔
کچھ افراد نے چندے کی بھاری کی رقم صرف عمران خان کے ہاتھ میں دینے کی ضد کی، یہاں تک کے بعض نے عمران خان کے ساتھ بلاواسطہ ملاقات کرانے کے لیے بھی ہمیں دباؤ میں لیا۔‘
اوسلو کے مرکزی کنسرٹ ہال سینٹرم سین میں فنڈ ریزنگ کا بڑا پروگرام کرنے کا طے ہوا۔ عفت قریشی نے بتایا کہ جب سینٹرم سین کی انتظامیہ کے سامنے عمران خان اور سیلاب زدگان کے لیے فنڈ ریزنگ کا نام لیا گیا تو کنسرٹ ہال کی فیس معاف کردی گئی۔ ایسے ہی عمران خان کے ساتھ لنچ پروگرام کے لیے مشہور پاکستانی محفل ریستوران کے مالک نے بھی بلا معاوضہ ساتھ دیا۔
عمران خان کی اس چندہ مہم کا انتظام کرنے والی نوجوانوں کی ٹیم کے ہاتھ میں انتطامات کے لیے بڑا بجٹ نہیں تھا۔ تاہم جذبہ ضرور تھا۔ اس ٹیم نے گھر گھر جا کر بھی پروگرام کے ٹکٹ فروخت کیے۔
عفت قریشی نے اپنے دوست الیاس محمد سے ایک گاڑی کا انتظام کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے عمران خان کی آمد والے دن اوسلو ایئرپورٹ پہ تین لیموزین اور واکی ٹاکی لیے کئی باڈی گارڈز بھیج دیئے۔ یہ انتظام بھی بالکل مفت تھا۔
عفت قریشی نے بتایا کہ جب ہم عمران خان کو اوسلو ایئرپورٹ لینے پہنچے تو وہ کوٹ پتلون میں ملبوس اور خالی ہاتھ تھے۔ وی آئی پی استقبالیہ دیکھ کر عمران خان کہنے لگے: ’ایسا پروٹوکول وزیراعظم کو ملتا ہے میں تو سادہ سا سیاستدان اور سوشل ایکٹوسٹ ہوں، جو پیسے میرے پروٹوکول پہ لگائے ہیں وہ سیلاب زدگان کو بھیجو میں تو اوسلو کی بس میں سفر کرلوں گا۔‘
عفت قریشی اور ان کے ساتھی جو عمران خان کے واقعی آجانے پہ پہلے ہی حیران تھے وہ ان کی سادگی سے اور بھی حیران رہ گئے۔
بہت کہا گیا کہ یہ گاڑیاں مفت میں ایک دوست نے فراہم کی ہیں لیکن عمران خان نہیں مانے اور تین میں سے دو گاڑیاں واپس بھیجنا پڑیں۔
یہ ہی وہ گاڑی تھی جس میں عفت قریشی عمران خان کو لیے سارا دن فنڈ ریزنگ پروگرام کرتی رہیں۔ اسی گاڑی کی نشست پہ عمران خان نے چند لمحے آنکھ بند کی اور کہا اب میں تازہ دم ہوگیا ہوں بتائیں اور کہاں جانا ہے۔ عفت قریشی کے بقول ہم تھک چکے تھے مگر سیلاب زدگان کے لیے عمران خان کا جذبہ و خلوص دیکھ کر ہمیں بھی بڑی ہمت ملتی۔
عمران خان اوسلو میں صرف 12 گھنٹے کے لیے آئے تھے، اس لیے زیادہ سے زیادہ چندہ اکٹھا کرنے کے لیے دو پروگرام ترتیب دیئے گئے۔
ایک ’لنچ ود عمران خان‘ کے عنوان سے دوپہر کا کھانا رکھا گیا جہاں شرکت کے لیے بھاری معاوضے پہ ٹکٹ بیچے گئے، اس پروگرام میں ڈپلومیٹس، کاروباری شخصیات، اور ناروے کی اہم سماجی شخصیات نے شرکت کی۔
(تصویر: عفت قریشی)
دوسرا پروگرام اوسلو کنسرٹ ہال سینٹرم سین میں ہوا جہاں سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانیوں اور نارویجنز نے ٹکٹ خرید کر شرکت کی۔
چودہ ستمبر 2010، جب عمران خان پاکستانی سیلاب زدگان کی مدد کی اپیل لیے اوسلو پہنچے،عین اسی دن اوسلو میں بالی وڈ فیسٹول میں فلم سٹار سلمان خان اپنی فلم دبنگ کی پروموشن اور سکریننگ کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ناروے کے میڈیا نے اس معاملے کی بھرپور کوریج کی جس میں ناروے کی ساوتھ ایشین کمیونٹی یہ کہتی نظر آئی کہ وہ سلمان خان کی فلم سکریننگ کے بجائے عمران خان کی فنڈ ریزنگ میں جانا پسند کریں گے۔
عمران خان کی اس فنڈ ریزنگ میں تقریباً چالیس لاکھ نارویجن کرون جمع ہوئے تھے ،عفت قریشی جب اس فنڈ ریزنگ کی یادداشت بیان کر رہی تھیں تو ایک لمحہ بیان کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی تیر گئی، کہنے لگیں ایک معمولی سے لباس والا شخص کنسرٹ ہال کے سٹیج کے قریب آیا، عمران خان تب تک بیک سٹیج جا چکے تھے۔ وہ سٹیج کے ایک طرف کھڑا نارویجن کرنسی کرون کے نوٹ گن رہا تھا، پھر اسے نجانے کیا سوجھی کے عفت قریشی کے پاس آیا اور نوٹوں کی پوری گڈی یہ کہہ کر تھما دی کہ پیسے عمران خان کو دے دینا، کہنا کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی جمع پونجی ہے۔
عمران خان جو صبح اوسلو پہنچے تھے پورا دن بغیر کسی کے وقفے کے کامیاب فند ریزنگ کرتے رہے اور اسی شام واپس لوٹ گئے۔
عفت قریشی اور ان کی چھوٹی سی یہ ٹیم نہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف میں تھی نہ یہ لوگ آج پارٹی کے کارکن ہیں لیکن انہیں تب بھی اندازہ تھا کہ عوام کا عمران خان پہ اندھا اعتماد ناقابل بیان ہے۔
انہیں آج بھی یقین ہے کہ عمران خان سیلاب زدگان کی مدد کو نکلیں تو بیرون ملک مقیم پوری کمیونٹی لبیک کہے گی۔
عفت قریشی جیسے بے لوث پاکستانیوں کا عمران خان سے امید لگانا بے وجہ نہیں لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اب 12 برس بعد سیاست نے عمران خان کے پیروں کو بڑا سختی سے جکڑ رکھا ہے کیا عمران خان انہیں جھٹک کے ایک بار پھر نکلیں گے صرف پاکستان کے لیے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔