900

چین کے جدید معاشی رجحانات کے عالمی ثمرات

تقریباً دو ہزار سال پہلے، تاجر سبزہ زاروں اور صحراؤں سے گزرتے تھے اور اونٹوں کے قافلوں اور بحری جہازوں کا استعمال کرتے ہوئے قدیم شاہراہ ریشم کے راستے مشرق اور مغرب کے درمیان تجارت کیا کرتے تھے۔آج اس طرح کے مشکل تجربات ڈیجیٹل تجارت کی بڑھتی ہوئی ترقی کی بدولت متروک ہو چکے ہیں، جس نے گلوبلائزیشن کی بدولت دنیا کو  آپس میں باہم مربوط کر دیا ہے۔ عالمی ڈیجیٹل اکانومی کے جاری کردہ وائٹ پیپر کے مطابق دنیا کے 47 بڑے ممالک میں ڈیجیٹل اکانومی کی مجموعی اضافی قدر 2021 میں 38.1 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی ڈیجیٹل اکانومی کا پیمانہ 7.1 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈیجیٹل تجارت، ڈیجیٹل معیشت کے ایک اہم جزو کے طور پر، ملکی اور بین الاقوامی ڈیجیٹل مارکیٹوں کو جوڑنے والی ایک اہم کڑی بن چکی ہے۔
جہاں تک دنیا کو آپس میں جوڑنے کی بات ہے تو 2013 میں چین کی جانب سے تجویز کردہ، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو  ، قدیم شاہراہ ریشم کے راستوں کے ذریعے ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے جوڑنے والے تجارتی اور بنیادی ڈھانچے کے نیٹ ورک کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں، بی آر آئی نے وسیع مشاورت، مشترکہ شراکت اور مشترکہ فوائد کے رہنما اصولوں پر عمل کیا ہے۔ اس نے رابطہ سازی منصوبوں کے ذریعے مقامی باشندوں کو ٹھوس فوائد پہنچانے میں شاندار پیش رفت دکھائی ہے۔یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ ڈیجیٹل تبدیلی کے رجحانات کو برقرار رکھنے کے لیے، ڈیجیٹل سلک روڈ کا آغاز کیا گیا۔اسے بیلٹ اینڈ روڈ کی ٹیکنالوجی کا طول و عرض کہا جا سکتا ہے، جو سمندر کے فرش سے لے کر بیرونی خلا تک پھیلا ہوا ہے ، جو مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا ایپلی کیشنز اور دیگر اسٹریٹجک انٹرنیٹ حل کو قابل اطلاق بناتا ہے۔ جولائی تک، چین نے 16 ممالک کے ساتھ ڈیجیٹل سلک روڈ تعاون کا طریقہ کار قائم کیا، 23 ممالک کے ساتھ سلک روڈ ای کامرس دو طرفہ تعاون کے طریقہ کار کو آگے بڑھایا، اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ 34 سرحد پار لینڈ کیبلز اور کئی بین الاقوامی سب میرین کیبلز تعمیر کیں۔یوں ڈیجیٹل سلک روڈ اعلیٰ معیار کے بیلٹ اینڈ روڈ تعاون میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ ویسے بھی ڈیجیٹلائزیشن خدمات میں جدت کے ایک نئے دائرے کو فروغ دے رہی ہے، جو اقتصادی ترقی کے لیے بہترین مواقع پیش کرتا ہے۔ چین کی سافٹ ویئر انفارمیشن ٹیکنالوجی، بے دو نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم، بلاک چین ٹیکنالوجی اور بہت سی ڈیجیٹل مصنوعات اور خدمات، جیسے گیمز، اینی میشن، فلم اور ٹیلی ویژن، سبھی کو بیلٹ اینڈ روڈ شراکت دار ممالک میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے۔
یہ بات قابل کر ہے چین کی ڈیجیٹل معیشت کا پیمانہ 2012 سے 2021 تک 11 ٹریلین یوآن (تقریباً 1.58 ٹریلین امریکی ڈالر) سے بڑھ کر 45.5 ٹریلین یوآن ہو چکا ہے، مجموعی جی ڈی پی میں اس کا تناسب 21.6 فیصد سے بڑھ کر 39.8 فیصد ہو چکا ہے۔ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل تجارت کے منافع نے کاروباری مواقع کا ایک نیا سلسلہ سامنے لایا ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ پارٹنر ممالک میں خاص طور پر کووڈ۔19کی وبا کے دوران نئی رفتار پیدا کی ہے۔ یہ ڈیجیٹل نیٹ ورکس کے ذریعے خدمات کی فراہمی کو نمایاں طور پر تیز کرنے کے لیے دنیا بھر کے کاروباروں کے لیے ایک اہم محرک بھی بن چکا ہے۔
عہد حاضر میں ڈیجیٹل معیشت ویسے بھی ایک ناگزیر رجحان بن چکا ہے اور دنیا بھر کے ممالک معاشی ترقی کے لیے ڈیجیٹلائزیشن میں سبقت کے لیے کوشاں ہیں۔ تکنیکی جدت اور ڈیجیٹل  معیشت سے جنم لینے والی نئی تیز رفتار پیداواری صلاحیت مختلف ممالک میں صنعتوں کو ازسرنو ترتیب دے رہی ہے اور "ڈیجیٹل معاشی وسائل" سے ہم آہنگ ممالک کو معاشی پہلووں کے اعتبار سے کمزور ممالک پر واضح برتری حاصل ہو رہی ہے۔ ڈیجیٹلائز معیشت کا موجودہ انقلاب حکومتوں، معاشروں، کاروباری اداروں اور افراد کے درمیان تعلقات کو بھی ازسرنو متعین کر رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج اسے ترقی کے ایک نئے عنصر کے طور پر اعلیٰ معیار کی ترقی اور مشترکہ خوشحالی کو فروغ دینے کا اہم محرک قرار دیا جا چکا ہے۔

بشکریہ اردو کالمز