179

خطرہ، بہت بڑا خطرہ

خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا ایک ایسا مظلوم طبقہ ہے جسے ہم نے ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے جو انتہائی قابلِ مذمت اور قابلِ اعتراض ہے۔ یہ ہماری ریاست اور معاشرے کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ایسے ممکنہ اقدامات کیے جائیں کہ اس طبقے کو بھی عزت اور احترام کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع دستیاب ہوں اور اُنہیں اُن برائیوں سے بچایا جا سکے جس میں اُنہیں دھکیل دیا گیا ہے۔

 اس سلسلے میں کچھ اچھے اقدامات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو تعلیم اور روزگار کے حصول کے کچھ مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں اور نجی اور سرکاری محکموں میں ان کو ملازمتیں دینے کی بھی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے لیکن انہیں نارمل اور باعزت زندگی گزارنے کے لیے ابھی ریاست، حکومت اور معاشرےکو بہت کچھ کرنا ہے۔ لیکن کوئی اگر اس طبقے کی محرومیوں اور اُن کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے نام پر کسی مغربی ایجنڈے کو یہاں نافذ کرنے کی کوشش کرے تو یہ زیادتی کی بات ہو گی۔

 افسوس کہ ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ عمومی طور پر قانون سازی کے وقت ماسوائے انگوٹھا لگانے کے کچھ نہیں کرتے ورنہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نام پر جس طرز کا قانون اس ملک میں ن لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کی مکمل حمایت کے ساتھ نافذ کیا گیاہے، اُس کی کچھ شقیں انتہائی خطرناک ہیں جو معاشرے میں بے راہ روی، ہم جنس پرستی اور دوسری معاشرتی خرابیوں کا سبب بن سکتی ہیں۔

 اس سلسلے میں مذہبی طبقوں میں بہت زیادہ اضطراب پایا جاتا ہے اور جن لوگوں نے اس قانون کو گہرائی سے پڑھا ہے،وہ اس پر بہت پریشان ہیں۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے اس خطرناک قانون کے خلاف پرزور آواز اُٹھائی اور سینیٹ میں کچھ ترامیم تجویز کی ہیں تاکہ جو حق اور انصاف کامستحق ہے اُسے اُس سے محروم نہ کیا جاسکے لیکن ٹرانس جینڈر کے نام پر ایسی تعریفیں قانون سے نکالی جائیں جن کا مقصد وطنِ عزیز میں بے حیائی، ہم جنس پرستی اور بے ہودگی کو فروغ دینا ہو۔ سینیٹر مشتاق مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے اس مسئلے کو اُٹھایا۔ اب یہ ارکانِ پارلیمنٹ کی ذمہ داری بنتی ہیں کہ وہ آنکھیں کھولیں اور اپنی غلطی کا تدارک کریں۔

مجھے کسی نے کینیڈامیں مقیم ڈاکٹرجویریہ سعید کا سوشل میڈیا میں لکھا گیا ایک مضمون شیئر کیا جن کا کہنا ہے کہ دنیا میں ٹرانس جینڈر قوانین پیدائشی خواجہ سرا یعنی انٹر سیکس افراد کے تحفظ کے لیے نہیں بنائے گئے، وہ تو پیدائشی طور پر میڈیکلی اور فزیکلی اسی طرح ہیں اور تعداد میں بہت زیادہ بھی نہیں۔

 ترقی یافتہ دنیا میں ان کے حوالے سے وہ مسائل نہیں جو ہمارے یہاں ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں ٹرانس جینڈر قوانین اختیاری طور پر اپنی صنف تبدیل کرنے والوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں اور یہ صرف صنفی انتخاب تک محدود نہیں بلکہ جنسی رحجانات کا احاطہ بھی کرتے ہیں۔ اس لیے ٹرانس جینڈر کے ساتھ ہم جنس پرستی کو بھی مکمل تحفظ مل جاتا ہے۔

ڈاکٹر جویریہ مزید لکھتی ہیں کہ پاکستان میں مذاق یہ ہوا کہ رنگین جھنڈوں کے ساتھ چالاک لوگوں نے انٹر سیکس لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر اپنی حیوانی خواہشات کی تسکین کا بندوبست کیا اور ٹرانس جینڈر لا 2018 میں تمام بڑی پارٹیوں نے نہ صرف اسی متنازع اصطلاح کے ساتھ عوام کو لاعلمی میں رکھ کر یہ قانون پاس کروالیابلکہ تحریک انصاف کی متعلقہ وزیر صاحبہ نے واضح الفاظ میں یہ کہاکہ Gender Identity ہر شخص کا اپنا حق ہونا چاہیے اور اس کے لیے کسی طبی جانچ کی شرط عائد نہیں کی جانے چاہیے۔

یہ بات وہ اس اعتراض کے جواب میں کر رہی تھیں کہ حقیقی یا پیدائشی خواجہ سراؤں کے لیے قانون بنائیں اور ان کو جنس کے انتخاب کا اختیار دینے سے قبل طبی معائنے سے یہ تصدیق کر لیں کہ وہ پیدائشی طور پر مبہم صنف کے ساتھ پیدا ہوئے بھی ہیں یا نہیں تاکہ دوسرے نفس پرست اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ ڈاکٹر جویریہ مزید لکھتی ہیں کہ مغرب میں اب بڑی تعداد میں بچے اور بچیاں اپنی جنس تبدیل کروانا چاہتے ہیں۔

کینیڈا جو کہ اس قانون کو پاس کرنے میں سب سے آگے ہے، وہاں، امریکہ اور یورپی ممالک میں اسکولوں میں بچوں کی جینڈر چینج کی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ اور والدین اگر اس سے خوش نہ ہوں تو ان کو مطلع کرنا بھی ضروری خیال نہیں کیا جاتا۔ قانون،حکومت اور سارا معاشرہ ان کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔

 یہ تیسری چوتھی پانچویں جماعت کے ننھے بچے بھی ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کہتی ہیں کہ آپ اندازہ لگائیے کہ یہ قانون انہی الفاظ کے ساتھ پاکستان میں قائم رہا تو کیا صورتِ حال ہوگی؟

دوہزار اٹھارہ سے لے کر کل کی تاریخ تک پاکستان میں اس قانون کی مخالفت صرف جماعتِ اسلامی کے سنیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے کی ہے اور وہی تن تنہا ان خطرناک لوگوں کے طنزو استہزا اور مخالفت کا سامنا کررہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ اس خطرے کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں، شش شش کرکے چپ کروائیں یا سیاسی تعصبات کی وجہ سے مصلحت سے کام لیں یا اپنے رہنمائوں پر زور ڈالیں کہ وہ اس بل میں بنیادی نوعیت کی ترامیم کریں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم