اشتراک عمل: واحد قومی ترجیح

حالیہ مون سون بارشوں سے آئے سیلاب کا پانی اُتر رہا ہے اور بہت سے علاقوں میں دریاؤں کی روانی معمول پر آ رہی ہے تاہم سیلاب کا پانی سندھ جا پہنچا ہے جہاں پانی کے ذخائر ناکافی ہونے کی وجہ سے اُن آبادیوں میں بھی سیلابی ریلے داخل ہو رہے ہیں‘ جو اِس سے قبل اِس قسم کی صورتحال میں نسبتاً محفوظ تصور کئے جاتے تھے۔ کراچی کو پینے کا پانی فراہم کرنے والی ”منچھر جھیل“ میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافے کے بعد جھیل کے بند ٹوٹ چکے ہیں اور ملحقہ وسیع علاقوں میں پانی پھیل رہا ہے۔ یہ صورتحال کس قدر ہنگامی و خطرناک اور خوفناک ہے کہ حالیہ سیلاب سے اموات کی تعداد چودہ سو کے قریب پہنچ چکی ہے! سیلاب نے سندھ کے میدانی علاقوں کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور اگرچہ سیلاب کی وارننگ (انتباہات) جاری کئے گئے ہیں لیکن جہاں چاروں طرف پانی پھیلا ہو‘ وہاں جان بچانے کے لئے کہاں جایا جا سکتا ہے!

 یہی صورتحال سیلاب سے متاثرہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی بھی ہے جہاں امداد و بحالی کی یکساں ضرورت ہے اور حکومت ”بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام“ کے تحت سیلاب متاثرین کے لئے معاوضے کا اعلان کر چکی ہے لیکن موجودہ ہنگامی صورتحال میں ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کے طریقہ کار سے ایک درجہ بلند اور آگے بڑھتے ہوئے خوراک‘ ادویات‘ کپڑے اور خیموں کی فوری فراہمی کی ضرورت ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ کے تحت سیلاب سے متعلق امداد کی مجموعی رقم 28ارب روپے سے بڑھا کر 72ارب روپے کر دی ہے لیکن یہ بھی کافی نہیں کیونکہ سیلاب سے ہزاروں مربع کلومیٹر پر پھیلی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ سیلاب زدگان کی امدادوبحالی کے لئے خیبرپختونخوا حکومت نے نقد رقوم کی تقسیم کا فیصلہ کیا ہے جس کی پیروی دیگر صوبوں کو بھی کرنی چاہئے۔سیلاب نے زرعی معیشت و معاشرت جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اس سانحے کی گھڑی میں چھوٹی موٹی سیاست سے پرہیز کی اشد ضرورت ہے۔

 ملک میں تباہی کا یہ پیمانہ ٹھوس کوششوں کا تقاضا کرتا ہے۔ حکومت اور ریاستی اداروں کو سول سوسائٹی اور دیگر حلقوں بشمول این جی اوز اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کی حمایت درکار ہے۔ بے گھر افراد کو مدد ”واحد قومی ترجیح“ ہونی چاہئے۔ موسلا دھار بارشوں نے قومی ترقی کے نام پر تعمیرات میں ہونے والی بدعنوانی کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا ہے کہ سڑکیں اور پلیں پانی میں اِس طرح بہہ گئی ہیں‘ جیسے یہ کاغذ کی بنی ہوئی ہوں! امداد و ریسکیو کے بعد ریلیف کا مرحلہ ختم ہو جائے گا جس کے بعد بحالی و دوبارہ ترقی جیسے چیلنجز سامنے آئیں گے۔ قومی اور صوبائی ٹاسک فورسز کو فوری طور پر تشکیل دیا جانا چاہئے تاکہ اِس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔ تعمیراتی فیصلے کرنے میں سیاسی جماعتوں کی فہم و فراست کافی نہیں بلکہ اِس کے لئے متعلقہ شعبوں کے ’ٹیکنوکریٹس (ماہرین)‘ پر مشتمل قومی و صوبائی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہئیں۔

 پانی کی سطح معمول پر آنے کے بعد ملک بھر میں زمینی سروے کی ضرورت ہو گی تاکہ زیرآب علاقوں میں اراضی کی تقسیم‘ ٹپوگرافیکل تغیرات‘ زمینی سطح میں تبدیلی‘ سڑکوں اور شاہراہوں کے سیلاب کی وجوہات‘ پانی کے بہاؤ میں حائل رکاوٹیں‘ غیر قانونی پشتوں اور بالخصوص ایسے مقامات کی نشاندہی ہونی چاہئے جہاں بڑی تعداد میں درخت لگائے جائیں۔ اِس بات کا مطالعہ (تفتیش) بھی ضروری ہے کہ جن علاقوں میں غیرقانونی طور پر درخت کاٹے گئے وہاں سے پانی اپنے ساتھ مٹی اور پتھر بہا کر لایا‘ جس نے زیادہ تباہی کی۔ اِس سلسلے میں بحرین بازار کی تباہی کو دیکھا جاسکتا ہے۔ ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے آبی گزرگاہوں کی نشاندہی کی جائے تاکہ ہموار نکاسیئ آب ممکن ہو سکے۔ صوبائی بورڈ آف ریونیو کو ٹاسک فورسز کے ساتھ زمین کی ملکیت کا ڈیٹا شیئر کرنے کا کام سونپا جانا چاہئے تاکہ دوبارہ آباد کاری کے عمل کو محفوظ بنیادوں پر ممکن بنایا جا سکے۔ 

اگر قدرتی اور مطلوبہ نکاسی کے راستوں کو تبدیل کرنے والی  عمارات کو دوبارہ بننے کا موقع نہ دیا جائے اور اِس سلسلے میں موجود قوانین و قواعد اور طریقہ کار پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے تو مستقبل میں ممکنہ طور پر سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے آب و ہوا کے نمونے بدل رہے ہیں‘ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ مزید غیرمتوقع موسموں کا تجربہ کیا جائے گا۔ حکومتوں کو ”نو کنسٹرکشن زونز“ بھی مقرر کرنے چاہئیں۔ تعمیراتی ڈھانچے اکثر فعال ندی نالوں کے راستوں پر بنائے جاتے ہیں جیسا کہ سوات میں دیکھا گیا اور پھر وہ عمارتیں گرنے کے خوفناک مناظر سبق آموز ہیں۔بارش اور سیلاب کے متاثرین کو عموماً سرکاری عمارتوں جیسا کہ سکولوں‘ کالجوں وغیرہ میں رکھا جاتا ہے‘ جن کی تعمیرات بنیادی سہولیات کی فراہمی اور پائیداری کے لحاظ سے زیادہ مثالی نہیں ہیں۔ سرکاری تعمیراتی منصوبوں کے ڈیزائن اور تعمیرات میں اعلیٰ معیار کو یقینی بنانے پر بھی غوروخوض ہونا چاہئے۔

 امداد و بحالی کا عالمی اصول یہ ہے کہ ”اچھے حالات کی توقع اور اُمید رکھتے ہوئے بدترین و ہنگامی حالات کی تیاری کرنی چاہئے۔“ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہنگامی حالات کی فرضی مشقوں کا انعقاد کر کے تیاری کی جاتی ہے۔ اِس سلسلے میں ”سوچی سمجھی منصوبہ بندی“ ہی اِس بات کو یقینی بناتی ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں معمولات زندگی بالخصوص درس و تدریس کا عمل پھر سے بحال کرنے کے امکانات اور طریقے (آپشنز) کیا ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت ”قومی انٹرن شپ پروگرام“ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ذریعے فن تعمیر اور سول و بلڈنگ انجینئرنگ میں نئے گریجویٹس سینئر پیشہ ور افراد کی نگرانی میں تعمیراتی کاموں کا حصہ بنیں گے۔

 اس طرح کے تعمیراتی کاموں کا انحصار مقامی صوبائی اور مقامی حکومتوں‘ انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز پاکستان‘ انسٹی ٹیوٹ آف آرکیٹیکٹس اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن جیسے پیشہ ورانہ اداروں کی شمولیت و مدد سے آسان و کم خرچ بنایا جا سکتا ہے۔ وقت ہے کہ تمام حکومتی و نجی ادارے اپنی اپنی استعداد کے مطابق قومی ترقی کے عمل میں اہم کردار ادا کریں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ری ڈویلپمنٹ کے عمل کو فعال کرنے کے لئے ہر شعبہئ زندگی سے تعاون حاصل کرنے کے لئے بھی کام کرنا چاہئے کیونکہ سیلاب زدگان کی تعداد اور تباہی کا حجم اِس قدر زیادہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اِس مشکل سے تن تنہا نہیں نمٹ سکے گی اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کرنی چاہئے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج