سلیبس اور کورس میں فرق

ہمارے سکول کالج اور یونیورسٹیاں وہ کارخانے ہیں جہاں ہماری پاکستانی قومیت رکھنے والے ذہنوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ جہاں تک ہمارے سلیبس اور پھر کورس کا تعلق ہے وہ ارضِ وطن کی ناموس کو مدِ نظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔سلیبس اور کورس میں بہت فرق ہے۔ سلیبس میں چند لائنیں ہوتی ہیں۔وہ یہ کہ کس کلاس کے سٹوڈنٹس کو کیا پڑھانا ہے۔جبکہ کورس انھیں گائیڈ لائن پر مبنی ہرمضمون کے لحاظ سے مختلف کتابوں کے مجموعے کا نام ہے۔جن میں انھیں سلیبس کی چند سطروں پر مشتمل ایک منشور ایک قاعدہ اور ایک قانون جو اس قوم کے لئے کچھ ماہرین نے بیٹھ کر ترتیب دیا ہوتا ہے۔مثلاً پاکستان کا قیام اور اس تحریک کے سلسلے میں مددگار رویے ڈسکس کرنا ہیں۔اسی طرح دوسرے مضامین بھی ہیں جن کے بارے میں سلیبس میں لکھا ہوتا ہے کہ طلبہ و طالبات کو سائنس کی ابتدا اور سائنس کے موجودہ اندازِ فکر اور ایجادات کے بارے میں آگاہی دلوانا ہے۔ پھر روزمرہ سائنس کا انسانی زندگی میں دخل بھی نفیس انداز سے ان کے ذہنوں میں داخل کیا جاتا ہے۔

سلیبس اور کریکلم اور نصاب ایک ہی چیز کے تین نام ہیں۔ اس طرح آپس میں گڈ مڈ ہیں کہ ایک کی تعریف کرتے ہوئے بندہ دوسرے کی تعریف و تشریح کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے۔ سلیبس میں ہے کہ استاد اور شاگرد کے رشتے کو سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ ان کو جو علم دیا جائے وہ پاکیزگی پر مشتمل ہو۔ نیچے والی کلاسوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کس طرح مختلف علوم کو اپنے اندر جذب کریں گے۔ اس سلسلے میں سلیبس کو سامنے رکھ کر مختلف رائٹر اپنے انداز سے مختلف کتابیں تحریر کرتے ہیں۔ وہ کتابیں ہوتی تو سب انھیں گائیڈ لائن پر ہیں مگر انداز مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً سلیبس میں ہے کہ اردو میں بچوں کو اخلاقی نظمیں سکھلائی جائیں مگر نام نہیں لکھے جاتے کہ کن کن شاعروں کی نظمیں پڑھائی جائیں۔ مگر کتاب کا رائٹر کہیں سے بھی اچھی اچھی نظمیں چھان کر اکٹھی کر کے چھاپ دیتا ہے۔ کورس کا مطلب ہی بہت سی چیزوں کو اکٹھا کرنا ہے۔مثلاً مریض کی بیماری کے مطابق ڈاکٹر کے ذہن میں ایک سلیبس یا نصاب یا پھر کریکلم ترتیب پاتا ہے جس کے مطابق وہ سوچتا ہے کہ مریض کو اینٹی بائیوٹک دینا ہے اور پھر شک کو دور کرنے کے لئے کہیں کوئی سائیڈ ایفکٹ ہو تو اس کے لئے دوسری اینٹی بائیوٹک بھی ساتھ ہوتی ہے۔

اسی طرح اس کو دیگر دوائیں اکٹھی کرکے دی جاتی ہیں گویا جیسے بچے کا بستہ کتابوں سے بھرا ہوتا اسی طرح مریض کا شاپر بھی کورس کی دواؤں سے بھرا ہوتا ہے۔جس کو وہ مکمل استعمال کرے گا تو اس کو شفا ملے گی۔ اگر وہ شفایاب نہ ہوا تویہی کورس جاری رکھے گایا اس کو دوسرا کورس دیا جائے گا۔کتابوں کا کورس بھی یہی ہے کہ وہ ماہر تعلیم اور دانشور وں کے سوچے ہوئے سلیبس کریکلم اور نصاب کو سامنے رکھ کر سٹوڈنٹ کے لئے مختلف کتابوں کی صورت میں تیار کیا جائے گا۔سلیبس میں طالب علم کی رائے بنانے کی ہدایت ہوتی ہے کہ وہ اس قابل ہو جائے کہ اہل ِرائے بن جائے کہ اس کی اپنی ایک الگ رائے ہو جو قابلِ تعریف ہو قابلِ تقلید ہو۔ سو اس کے مطابق کورس میں ایسے سبق رکھے جاتے ہیں جو ان گائیڈ لائن کے مطابق ہوں جو اس سلیبس میں موجود ہے۔

 سلیبس میں سوچا جاتا ہے کہ جو تعلیم دینا ہے اس کا مقصد کیا ہے۔طالب علم میں کیا کیا صلاحیت پیدا کرنا مقصود ہیں تاکہ وہ معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بن کر بڑا ہو اور ابھرے تاکہ اس سے معاشرہ فلاح پائے اور اس کی تعلیم کے اظہار کے بغیر معاشرے کی فلاح ممکن نہ ہو۔پھر یہ بھی سلیبس ہی میں لکھا ہوتا ہے کہ معاشرے میں ہر میدان میں اس وقت کون کون سی غلط فہمیا ں رائج ہیں ان کو ایسے اسباق لکھوا کر دورکرنا ہے تاکہ طالب علم کا ذہن غلط فہمیوں اور کنفیوژن سے پاک ہو جائے۔کورس تو سلیبس کے مطابق بنایا گیا ایک طرح کا وسیع دستر خوان ہے جس پر ایک طالب علم اپنے جثے اپنے حصے اور پھر حوصلے کے مطابق ذہنی خوراک کا انتخاب کرے اور اس میں شفایاب بھی ہو او رکامیاب بھی ہو۔یعنی ایک طرح سے سلیبس اور کورس وہ عوامل ہے جو تعلیم و تدریس کی بنیادہے اور اس پر طلباء کی شخصیت سازی اور مستقبل میں عملی زندگی کا انحطار ہے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج