115

ستمبر ستمگر

مختلف حلقوں کی طرف سے اب یہ آوازیں آنا شروع ہوچکی ہیں کہ ستمبر ستمگر ہوگا بلخصوص وہ حلقے جو عمران خان کے مخالف ہیں وہ عمران خان کو گرفتار دیکھنا چاہتے ہیں کچھ کا خیال ہے عمران خان کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ انکو برا بھلا کہہ رہا ہے جنہیں وہ کبھی خود اس سے بڑھ کر کہتے رہے ہیں جب کہ کچھ بڑے ایسے بھی ہیں جو اس ہلچل کو انجوائے کررہے ہیں انکا خیال ہے کہ جب چاہیں عمران خان کو خاموش کرواسکتے ہیں جیسے بھٹو کو کروایا تھا رہی بات فالوورز کی وہ بھٹو کے کم نہ تھے مگر ضیاء الحق 11سال حکومت کرگیا اورمیاں نواز شریف کے فالورز بھی کسی سے کم نہیں تھے جب انہیں جنرل مشرف نے کان سے پکڑ کر تخت سے اتارکر سیدھا جیل بھیج دیا تھااور پھر انہوں نے بھی 10سال حکومت کی کچھ لوگ دیکھو اور مزے لو کی پالیسی پر عمل کررہے ہیں اور کچھ لوگ جارحانہ انداز میں کھیل رہے ہیں ویسے تو یہ ستمبر واقعی بڑا ستمگر ثابت ہوا ہے سیلاب مال و اسباب کے ساتھ ساتھ جانوں کا نظرانہ بھی لے لیا رہی سہی کثر مہنگائی نکال رہی ہے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی ستمگری کی بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف)نے حکومت کے ساتھ 608 ارب وصولی کا مزید معاہدہ کیا ہے پہلے قومی خزانے پر ڈاکہ ڈالا گیا اب غریب کی جیب پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں لوگوں میں پٹرول لینے اور بجلی کا بل دینے کی سکت نہیں اور یہ اب مزید اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔اس وقت نہ صرف پاکستان میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے بلکہ دنیا بھی اسکی لپیٹ میں آچکی ہے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں اگست میں عالمی سطح پر ریکارڈ بلندی پر پہنچنے کے بعد بھی بڑھ رہی ہیں اور یہ صورتحال کمزور اقوام پر بہت زیادہ بوجھ ڈالنے کے علاوہ عالمی اقتصادی بحالی کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں گزشتہ سال 23.1 فیصد اضافہ ہوا جو ایک دہائی سے زائد عرصے میں سب سے تیز رفتار اور 1961 کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہے اب یوکرین میں جنگ اور روس پر پابندیوں کی وجہ سے دو بڑے زرعی ممالک میں پیداوار اور شپمنٹ پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں دونوں ممالک کا دنیا کی گندم کی کل برآمدات میں حصہ تقریبا 30 فیصد اور مکئی میں 18 فیصد ہے یہ تجارت زیادہ تر بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کے ذریعے ہوتی ہے جو کہ اب بند ہو چکی ہے جنوبی ایشیا میں، گندم اور چاول کی قیمتوں میں اضافہ نسبتا کم ہے تاہم کھاد کی سپلائی میں کمی اور تیل کی بلند قیمتوں کی وجہ سے فصل کی کٹائی، نقل و حمل سیلاب کی تباہ کاریورں اور خوراک کی پراسیسنگ کے اخراجات بڑھ سکتے ہیں چین جس کے پاس دنیا بھر کے گندم اور مکئی کے نصف سے زیادہ ذخائر ہیں پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق چین سے کم نرخوں پر اشیاء خرید سکتا ہے جبکہ مستقبل میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو گا کیونکہ اس کی کمزور معیشت اس طرح کے جھٹکے کو برداشت نہیں کر سکتی ہماری تعمیراتی صنعت کو بھی نقصان پہنچا ہے کیونکہ پاکستان یوکرین سے سٹیل درآمد کر رہا تھا اور اس وقت یوکرین پاکستان برآمدات بھی بند ہو چکی ہیں جس سے لوکل انڈسٹری اور معیشت دونوں متاثرہیں پاکستان، انڈونیشیا اور مصر کے بعد یوکرین سے گندم درآمد کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک بھی ہے پاکستان اس وقت مہنگائی کی بلند ترین شرح سے دوچار ہے اور گزشتہ جون تک اس کا تجارتی خسارہ 50 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 57 فیصد زیادہ ہے موجودہ حالات میں پاکستان کیلئے اس صورتحال سے باہر نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ یہاں کے عوام کو اس ابھرتی ہوئی بدترین صورتحال کا ہمت سے مقابلہ کرنا ہوگا جس بہادری سے ہم نے سیلاب کا مقابلہ کیا دیکھا جائے تو سیلابی ریلے سب کچھ بہا کر لے گئے، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں ہرطرف تباہی کے مناظر نظر آرہے ہیں ملک بھر میں 1290 اموات، 5 لاکھ 44 ہزار 376 گھر تباہ ہوگئے، 7 لاکھ 36 ہزار سے زائد مویشی ہلاک ہو چکے ہیں ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے 12 ہزار 588 افراد زخمی بھی ہوئے، 5 لاکھ 44 ہزار 300 سے زائد گھر تباہ ہوئے، 9 لاکھ 23 ہزار گھروں کو نقصان پہنچا ہے 5 ہزار 563 کلو میٹر سڑکیں بھی بارش اور سیلاب میں تباہ ہوگئیں کھلے آسمان تلے پڑے لوگوں کوشدید مشکلات کا سامنا ہے جہاں اب مختلف بیماریاں بھی ان مظلوموں پر حملہ کررہی ہیں یہ آفت ابھی ختم نہیں ہوئی تو ساتھ ہی کورونا کی چھٹی لہر نے حملہ کردیا پچھلے 24گھنٹوں کے دوران اس وائرس سے 3 مریض جاں بحق ہو گئے ہیں اور 228 نئے مریض سامنے آئے ہیں جن میں سے 114 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے ان حالات میں ستمبر کو ستمگر بنانے والوں سے گذارش ہے کہ غریب عوام کا سوچیں جو بجلی کے بھاری بلوں کے بوجھ کے نیچے دبی ہوئی ہے آخری تاریخ گذرنے کے باوجود لوگ اپنا بل جمع نہیں کروا سکے بچوں کی فیسیں جمع نہیں کروا سکے گھروں میں راشن نہیں ڈال سکے ایک طرف مہنگائی نے مڈل کلاس لوگوں کی زندگی مشکل بنا رکھی ہے تو دوسری طرف انسان اپنے گھر والوں کو دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے لیے گدھے کی طرح کام کررہا ہے مگر اسکے باوجود بات فاقوں تک پہنچ رہی ہے ان مشکل ترین حالات میں وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وقت سیاست سے اوپر سوچنے کا ہے اصل سیاست اس وقت دکھی انسانیت کی خدمت ہی ہے مصیبت میں گھرے بہن بھائیوں کی مدد ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے یہ وقت اختلافات بھلا کر مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی مدد کرنے کا ہے اورمتاثرین سیلاب کی مدد کے لئے آگے آنا عبادت سے کم نہیں اور اس کار خیر میں سب کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے یہی ہمارا امتحان بھی ہے کہ ہم سب مل جل کر مصیبت میں پھنسے ہوئے بہن بھائیوں کی مدد کریں ورنہ ستمبر واقعی ستمگر بن جائیگا صرف سیلاب متاثرینکے لیے نہیں بلکہ ہمسب کے لیے

بشکریہ اردو کالمز