182

اِبتلاؤں سے وہ نہیں ڈرتا

خبر ہے کہ برطانوی رکن پارلیمنٹ کلاڈیا ویب نے حالیہ بارشوں اور تباہ کاریوں کے باعث ہونے والی مہنگائی اور بھاری نقصانات کے پیشِ نظر دنیا سے پاکستان کے قرضے معاف کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس خبر نے میرے احاطۂ خیال میں پنپنے والی تجاویز کو اچھی خاصی کُمک بخشی ہے، جن کی بنا پر روز بروز مزید خطرناک ہوتے سابقہ وزیرِ اعظم عمران خان کے طوفانی عزائم کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت وطنِ عزیز کے نوے فیصد عوام ، عمران کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہم نے کسی سفارشی، سازشی یا معاوضی این جی او کی ویب سائٹ سے نہیں اڑائے۔ کسی عمرانی ہمدرد کے جذبات سے بھی کشید نہیں کیے بلکہ بچشمِ خود، روایتی انداز میں سیاسی بازی جیتنے کی سر توڑ کوشش کرنے والی درجن بھر پارٹیوں کے سربراہوں کی آنکھوں ، حربوں اور چالوں میں ملاحظہ کیے ہیں۔ اس کے باوجود ایک دو بڑی پارٹیوں کے گھسے پٹے مفاد پرست مشیر، چند وزیر اور صحافی، حکمرانوں کو وہی بوسیدہ و کاہیدہ مشورے دینے میں مصروف ہیں، جو ماضی بعید میں کُشتی کے اکھاڑے کے باہر بیٹھے کن ٹُٹے لنگوٹ بردار پہلوان کو دیا کرتے تھے، یعنی اُستاد پُٹھی مارو سُو… پہلوان جی ایہدا کَن مروڑ دیو… جانگیے نوں ہتھ پاؤ… دھوبی پٹڑا لاؤ… پنڈے اُتے مٹی سَٹو وغیرہ وغیرہ یہ چینل بند کرنا، اپنے مزاج کے خلاف بات کرنے والے صحافیوں کو ذلیل کرنا، عمرانی سیاست دانوں کی باتوں کو توڑ مروڑ کے موقر اداروں کو بھڑکانا اور متنازع بنانا، چھوٹی سے چھوٹی بات میں مشاورت کے لیے لندن کی جانب آنیاں جانیاں کرنا، چند نا اہل مشیروں سے ہمہ وقت آ لڑائیے لڑیے کا ڈراما کرانا، یقین کریں اب تو پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ تو سامنے نظر آنے والی پُتلیاں ہیں، ان کی ڈوریں کسی اور جگہ سے ہِل رہی ہیں۔ ان کے فلمی یا گلی محلے والے مکالمے لکھنے والوں کو حکومت کی عزت کا نہیں، اپنی روٹی روزی کا خیال ہوتا ہے۔ عمران خان کی بھی جو تھوڑی بہت ساکھ خراب ہوئی ہے وہ میڈیا پہ نامناسب الفاظ بولنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ میرا اصل میدان ادب اور تدریس ہے لیکن مَیں گزشتہ ربع صدی سے کارزارِ صحافت سے بھی کسی نہ کسی طور منسلک ہوں۔ اس لیے سابقہ تین دہائیوں کے سیاسی جوڑ توڑ میری غیر جانب دار آنکھ کی پُتلی میں محفوظ ہیں۔ اس وقت میری ایمان دارانہ رائے یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جو کسی زمانے میں ملک کی مقبول ترین جماعت تھی، زرداری صاحب کی شاطرانہ سیاسی چالوں سے اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔ دھونس دھاندلی اب زیادہ دیر تک سروائیو کرتی نظر نہیں آتی۔ سیاست میں زندہ رہنے کے لیے اب جونیئر بھٹو کی طرح ہاریوں اور لاچاروں کے پاس ننگے پاؤں جانا پڑے گا، جو ظاہر ہے زرداری صاحب کا مزاج نہیں اور بلاول جیسے نازک مزاج کے بس کی بات نہیں۔ جو لوگ سیاست میںاپنے عقائد کا منجن بیچتے ہیں، اس کے خریدار بھی تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ حکیم جی کہتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام اگر زندہ ہوتے تو ان سے برملا کہا جا سکتا تھا کہ پاکستان کا بننا چاہے علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھی یا مہارت لیکن آپ کے لونڈوں کی سازشوں نے اس کے راستے میں کانٹے بونے کے علاوہ آج تک کچھ نہیں کیا۔ باقی پارٹیوں کا تو ظاہر ہے حلوائی کی دکان پہ نانا جی کی فاتحہ دلوانے سے زیادہ کوئی کردار نہیں، اسی لیے چاتر ہوشیار پوری نے کہا تھا: ان حکیموں سے ، ان طبیبوں سے موت ٹلتی نظر نہیں آتی باقی مسلم لیگ بچتی ہے، جس کا بچا کھچاا ایڈیشن ن لیگ کی صورت ہمیں میسر ہے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ شہباز شریف کی اگر چابی مروڑنی بند کر دی جائے تو اس میں ڈلیور کرنے کی صلاحیتیں نواز شریف سے زیادہ ہیں لیکن گیارہ پارٹیوں کے مطالبوں، محاسبوں نے اسے بوکھلاہٹ کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ ایسے میں ان حقائق کو تسلیم کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ پی ڈی ایم کی ساکھ حد درجہ مہنگائی، زر خرید چینلوں کے حقِ نمک ادا کرنے کے جھوٹے پراپیگنڈوں اور مشیروں کے کہنے میں آ کے مخالفین کے خلاف اوچھے ہتھکنڈوں نے عمران خان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ اگر ان باتوں میں وزن نہیں تو ضمنی الیکشن کے نو حلقوں میں عمران کے مقابلے شہباز شریف، مریم، نواز، مولانا فضل الرحمن ،زرداری میں سے کوئی ایک فریق میدان میں اتار کے دیکھ لیجیے، خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کون سب پہ بھاری ہے؟ اگر یہ ممکن نہیں تو حیلے بہانوں کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے چند کام ایسے ہیں جس سے عمران کی مقبولیت کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ ۱۔ تمام پارٹیاں مل کر کالا باغ ڈیم کے بنانے کا نہ صرف اعلان کر دیں بلکہ اس کی تعمیر کے لیے کچھ عملی اقدامات کا بھی فوری آغاز کر دیا جائے۔ ۲۔ اس وقت امریکا کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں، اس کی جتنی ہو سکے منت سماجت کر کے پاکستان کا کل قرض معاف کروانے کے پیچھے پڑ جائیں، جس کا آغاز برطانوی رکن پارلیمنٹ نے کر دیا ہے، شاید اور بھی طاقتیں آپ کی آواز میں آواز ملانا شروع کر دیں۔ خوف ناک مہنگائی، سیلاب متاثرین، آباد کاری، کے پتے آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر وہ کسی صورت نہ مانے تو اسے روس سے سستی گندم اور تیل منگوانے کی دھمکی دی یا اجازت لی جا سکتی ہے۔ ۳۔ اگر ممکن ہو تو اپنی پارٹیوں سے رانے، تگانے، ڈھمکانے، نمانے، یس مین، رسہ گیر، تلوے چاٹ، اُڈنے سپ نکال کے پڑھے لکھے با صلاحیت لوگ بھرتی کرنا شروع کریں۔ وفادار صحافیوں اور اشتہاروں پہ بھروسا کم کر دیں۔ ۴۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کا دل جیتنے کے لیے ان کا ووٹ اور ای وی ایم سسٹم فوری طور پر بحال کریں۔ ۵۔ ایک مشکل کام یہ بھی کہ عمران خان کی طرح اپنی ساری جائیدادیں قومی خزانے کے نام کر نے کا اعلان کر دیں۔ آخری بات یہ کہ اگر آپ سارا زور مخالفین کو ڈرانے دھمکانے، پولیس گردی، مقدمہ بازی ہی پہ صرف کرتے رہے تو یہ حربے عمران کو شدید مظلوم اور مزید ہیرو بنانے میں کھاد کا کام کریں گے۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز