164

بھوک عام کرنے کا منصوبہ

کہانی میں جن بھوت کے ساتھ ساتھ طاقت کو برے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے ولن بھی ہوتے ہیں۔ ریاستوں میں بٹی ہوئی دنیا میں کئی طاقتیں ولن ہیں۔ یہ ولن سپلائی چین کو توڑنے کے لئے وائرس چھوڑتے ہیں ،جس طرح چند برس قبل برڈ فلو کا وائرس آیا‘ شائد حالیہ سیلاب سے قبل گائے‘ بھینسوں میں ہلاکت خیز لمپی سکن کا وائرس بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ہزاروں جانور لمپی سکن وائرس سے مر گئے‘ کئی مرنے کے قریب۔پاکستان اپنی ضرورت کی گندم اگا لیتا ہے‘ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کی ضرورت بھی پوری کرتا ہے۔سبزیوں اور پھلوں کی بہتات ہے۔اس کے باوجود پیاز ‘ ٹماٹر‘ لہسن وغیرہ فی کلو 300روپے سے اوپر چلے گئے۔ مجبوری اس حد تک آ پہنچی کہ ہمیں بھارت سے تجارتی تعلقات منقطع رکھنے کے فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے۔عبوری طور پر دوبئی اور افغانستان سے سبزیاں منگوا رہے ہیں جو بھارت کی کاشتہ ہی ہیں۔ آئی ٹی کی دنیا میں وائرس وہی تباہی لاتا ہے جو برڈ فلو اور لمپی سکن لا سکتے ہیں۔ وہ جانور اور مویشی مارتا ہے یہ انفارمیشن نیٹ ورکنگ کاٹ دیتا ہے۔آئی ٹی ماہر عامر ندیم کے مطابق وائرس کی صورت میں جن لوگوں کو نظام تک رسائی دی گئی ہوتی ہے ان کے سسٹم کو محفوظ بنایا جاتا ہے‘ صفر بھروسے کی پالیسی نافذ کی جاتی ہے‘ اس بات کا امکان رکھا جاتا ہے کہ ڈیٹا لیک ہو سکتا ہے، ان تمام خطرات کی شناخت کی جاتی ہے جو نظام کو داخلی طور پر درپیش ہو سکتے ہیں‘ ان ذرائع کی شناخت اور حفاظت کی جاتی ہے جو وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ایک حفاظتی تدبیر یہ اختیار کی جاتی ہے کہ حساس ڈیٹا تک رسائی کو کم سے کم کر دیا جاتا ہے اور آئی ٹی کے شیڈو رولز کو سختی سے نافذ کیا جاتا ہے۔ غذا اور خوراک کی سپلائی چین کو متاثر کرنے والے کچھ کردار زلزلہ‘ سیلاب‘ بارشیں‘ خشک سالی وغیرہ ہیں۔غیر قدرتی عناصر میں ایسی بیماریاں اور وائرس شامل ہیں جو اربوں ڈالر کی سائنسی تحقیق کے بعد تیار کئے جاتے ہیں۔وہ ممالک جو میڈیکل کو خدمت خلق نہیں انڈسٹری سمجھتے ہیں وہاں نئی بیماریاں بنانے اور ان کے توڑ کے لئے ادویا سازی پر بھاری سرمایہ کاری ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کورونا وائرس بھی ایسی ہی کوئی چیز ہے‘ جسے بنانے والوں نے تھوڑے عرصے بعد ہی ویکسین اور دیگر حفاظتی ادویات و آلات کی صورت میں بڑا کاروبار کیا۔پاکستان میں کپاس کی فصل کا مخصوص بیج عام ہوتا رہا ہے۔بی ٹی کاٹن کا بیج بھارت میں سینکڑوں کسانوں کی جان لے چکا ہے۔کسانوں کو بتایا گیا کہ یہ بیج کاشت کریں تو موجودہ اقسام کی سنڈیاں اور کیڑے نہیں آئیں گے۔یوں سپرے کا خرچ کم ہو گا۔موجودہ اقسام کی سنڈیاں تو نہیں آتیں البتہ نئی سنڈیاں آ جاتی ہیں۔کسانوں نے بیج مہنگا لیا ہوتا ہے۔نئی سنڈیوں کو مارنے کے لئے زرعی ماہرین چالباز کمپنیوں کی تیار نئی زہریں سفارش کرتے ہیں۔زرعی ادویات والے دولت سمیٹتے ہیں اور کسان پھانسی پر جھول جاتا ہے یا زہر کھا لیتا ہے۔دنیا ضرورتوں کے لئے ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے۔پاکستان تیل کے لئے عرب ملکوں کا محتاج ہے‘ عرب ملک پھل اور سبزیوں کے لئے زرعی ملکوں کے محتاج۔دنیا کا سارا نظام ایک دوسرے سے لین دین پر چلتا ہے ۔کوئی بھی سو فیصد خود کفیل نہیں۔ ہر چیز کی سپلائی چین میں تسلسل ہمواریت اور توازن سے چلتا ہے۔کسی ایک چیز کی ڈیمانڈ سے اس کی سپلائی کم ہو جائے تو ایک دوسرے کے ساتھ چپکی ہوئی دنیا بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی فوڈ کمپنی cargillسالانہ 113.5ارب ڈالر کماتی ہے‘ دوسری کمپنی آرچر ڈینئلز مڈلینڈ64.5ارب ڈالر۔تیسری نیسلے63.8ارب ڈالر‘ چوتھی سیاکو کارپوریشن 60.1ارب ڈالر‘ جی بی ایس 51.7ارب ڈالر‘ چھٹی جارج ویسٹن 50ارب ڈالر، پھر ٹائی سن فوڈ 42.4ارب ڈالر‘ بنگے 41.4ارب ڈالر اور پیپسی کو 36.26ارب کما رہی ہے۔ اور بھی کئی کمپنیاں ہیں۔اربوں ڈالر سالانہ کمانے والی کمپنیوں کی خواہش ہے کہ ریاستیں اپنے شہریوں کو غذا اگانے کے لئے جو پالیسی بناتی ہیں وہ ان کی مرضی سے ترتیب دی جائے۔پاکستان جیسے ممالک میں تو کوئی ایسے بین الاقوامی معاہدے پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتا۔بابو یا موروثی سیاسی حکمران جاتے ہیں اور دستخط کر کے آ جاتے ہیں۔ شائد انہیں کچھ حصہ بھی کسی صورت مل جاتا ہو۔ پاکستان کے موسم کنٹرول کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔محکمہ موسمیات‘ آبپاشی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے ذمہ دار سوئے ہوئے ہیں۔ساری دنیا میں جو باتیں ہو رہی ہیں وہ پاکستانیوں کے کانوں تک نہیں پہنچ رہیں۔اس شبہ کا اظہار بے جانہیں کہ حالیہ سیلاب ہارپ ٹیکنالوجی کے استعمال کا نتیجہ ہے۔ افسانے عدالت میں بطور گواہ پیش ہوتے ہیں نہ انہیں ثبوت کا درجہ ملتا ہے ‘ پھر بھی ان کی سچائی مقبول ہوتی ہے۔کچھ ماہ پہلے لکھا تھا پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا تعلق یوکرین جنگ سے ہے۔ ایک کالم میں ’’ایبسولیوٹلی ناٹ‘‘ کی کہانی بھی اشاروں میں لکھی۔یہ کہانی نیا موڑ لینے کو ہے۔آزادی اظہار پر پابندیاں نہ ہوتیں تو اب تک سب کے کانوں تک مزے مزے کی حکائتیں پہنچ چکی ہوتیں۔ خیر چند روز سے فکر مندی کی کئی خبریں آ رہی ہیں۔ ایک خبر یہ دی جا رہی ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پہلے یورپ اور ایشیا کے کئی ممالک کو گندم فراہم کرنے والے یوکرین کو میدان جنگ بنایا گیا۔پاکستان کا مطالعہ کیا جاتا رہا ہے کہ عالمی پابندیوں کے باوجود اس کے لوگ جی سکتے ہیں۔یوکرین کے بعد پاکستان کی زراعت پر حملہ کیا گیا۔حالیہ سیلاب کے بعد پاکستان گندم‘ سبزیاں ‘ پھل اور دیگر غذائی اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔سپلائی چین کی ایک اور کڑی کاٹ دی گئی ہے۔بھوک عام کر کے خوراک مارکیٹ کی جائے گی ، ہوشیار ۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز