159

سیلاب، سیاپے اور مقابلے

سیلاب زدگان کے لئے امداد  کی اپیل اور رقوم کے  اعلانات کے حوالے سے انصافیوں اور جیالوں میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ عمران خان کی ٹیلی تھون پر 5ارب روپے کے اعلانات ہوئے۔ پیپلزپارٹی دعویٰ کررہی ہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی اپیل پر عالمی برادری کے متعدد ممالک نے 1کھرب 30ارب روپے کی امداد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ 
ادھر اقوام متحدہ نے پاکستانی سیلاب متاثرین کے لئے 16کروڑ ڈالر امداد کی اپیل کی ہے۔ 
فقیر راحموں کہتے ہیں ’’مقابلہ بنتا ہی نہیں۔ عمران ایک پارٹی کے سربراہ ہیں اور بلاول پاکستان کے وزیر خارجہ، ان کی اپیل مملکت پاکستان کی جانب سے عالمی برادری سے اپیل شمار ہوگی‘‘۔
 ہمارا المیہ ہی یہی ہے اندھی شخصیت پرستی کے جنون میں دیوار پر لکھی حقیقت سے آنکھیں چرانا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کس کی اپیل پر کتنے روپے امداد میں دینے کے اعلانات ہوئے، سوال یہ ہے کہ متاثرین سیلاب اس وقت کس حال میں ہیں اور کون ان کے لئے کیا کررہا ہے۔
 زمینی حقیقت یہ ے کہ سیلاب متاثرین کی حالت بہت پتلی ہے۔ مسائل کا انبار ہے۔ محرومیاں اور مایوسیاں ہیں اور لبوں پر مچلتے  سوالات کہ اب زندگی کیسے بیتائی جائے گی، گھر پھر سے کیسے تعمیر ہوں گے۔ حصول رزق کیسے ممکن ہوگا؟ 
ساعت بھر کے لئے رکئے، وزیراعظم نے عمران خان کو سیلاب کی صورتحال اور معیشت پر بات کرنے کی دعوت دی ہے۔ بصدِ احترام ان سے یہ دریافت کیا جانا بنتا ہے، عالی جناب !  سیلاب کی صورتحال اور متاثرین کے حوالے سے بلائی گئی اے پی سی میں تحریک انصاف کو دعوت کیوں نہیں دی گئی؟
 ویسے اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ سیاسی اختلافات کو نفرتوں میں تبدیل کرنے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ نفرتوں کے اس دھندے کی شروعات خان نے خود کیں ۔ بطور وزیراعظم پونے چار سال تک اس نے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کیا یہاں تک کہ موصوف کورونا وبا پر ہوئی پارلیمانی لیڈروں کی کانفرنس میں اپنے بھاشن کے بعد نیٹ بند کرگئے تھے۔
 ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں ’’شاہ جی یہ تمہارے لاڈلوں کی حکومت میں 13جماعتیں شامل ہیں ان سے کہو آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے سیلاب زدگان کے لئے عملی کام کریں‘‘۔ 
مجھے اس بات سے بالکل بھی اختلاف نہیں پی ڈی ایم، پی پی پی، باپ، اے این پی اور ایم کیو ایم کی مخلوط وفاقی حکومت  کو ہنگامی بنیادوں پر سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ لگ بھگ ساڑھے 3کروڑ پاکستانی سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ 
سیلاب کا عذاب تو ہے ہی اس پر ستم یہ ہے  کہ مہنگائی کے سونامی نے عام شہری کے ضبط کے بندھن توڑ ڈالے ہیں۔ یہ سطور لکھتے وقت لاہور میں پیاز 310روپے سے 340روپے اور ٹماٹر 500روپے کلو ہیں۔ بھنڈی 210روپے، آلو 110روپے، ہری مرچ 225روپے پائو فروخت ہورہی ہے۔ 
مختلف شہروں میں مقیم دوستوں نے بھی جو نرخ بتائے وہ قریب قریب یہی ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان، تونسہ، کوئٹہ، سوات، نوشہرہ، راجن پور، نوشہرو فیروز اور دوسرے علاقوں  میں سیلاب متاثرین کی خدمت میں مصروف دوستوں کا کہناہے کہ سیلاب زدگان کو پکا پکایا کھانا فراہم کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
 ہر چیز (اشیائے ضرورت) مہنگی ہورہی ہیں اور حکومت نام کی کوئی چیز کہیں دستیاب نہیں۔ دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو یقیناً سوچنا چاہیے لیکن اگر پنجاب میں باپ بیٹا جوڑی مخالفین کے خلاف پرچے کرانے سے فارغ ہوگئی ہو  تو وہ بھی اس مسئلہ پر ضرور غور کرے 
 ’’سیلاب متاثرین کی آباد کاری میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے‘‘۔ کے اخباری اشتہاری زبانی بیانی  دعوئوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ پنجاب حکومت کی ’’عزت کا بھرم‘‘ ریسکیو 1122نے رکھ لیا جس کے عملے نے اپنا آرام ہم وطنوں پر قربان کردیا ورنہ چودھری صاحب تو کھوج کھوج کر بندہ بندی تلاش کرتے ہیں اور سیاسی معاون بنانے کا اعلان کردیتے ہیں۔ 
معاف کیجئے گا بات کچھ دور نکل گئی عرض یہ کرنے چارہا ہوں کہ امداد کے اعلانات پر مقابلہ اور تماشا لگانے کی بجائے توانائیاں متاثرین کی مدد کے لئے صرف کی جانی چاہئیں۔ ابھی سیلابی پانی موجود ہے۔ یہ جب اترے گا تو اپنے پیچھے بہت سارے مسائل چھوڑجائے گا ان سے عہدہ برآ کیسے ہونا ہے۔ 
ساڑھے 3کروڑ لوگوں کی بحالی چھومنتر سے ممکن نہیں۔ حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی  ضرورت ہے اس لئے صاحبان اقتدار ہوں۔ سابق حکمران جماعت یا خاص و عام سبھی کو سنجیدہ رویہ اپنانا چاہیے۔
 فقیر راحموں کے خیال میں سب کچھ ممکن ہے سنجیدہ رویہ ممکن نہیں۔ بات تو یہ سچ ہے لیکن امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سوات کالام میں دریاکی حدود اور کناروں  پر  غیرقانونی تعمیرات کرنے اور اجازت دینے والوں کے خلاف کارروائی کی  ضرورت پر زور دیا ہے۔ اصولی طور پر کارروائی ہونی چاہیے اور اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ غیرقانونی تعمیرات کے ضمن میں کس نے کتنا مال کمایا۔ 
درست یا غلط، اس معاملے میں سابق وزیراعلیٰ و سابق وزیر دفاع پرویز خٹک، سابق وفاقی وزیر مراد سعید ایک سابق کمشنر مالاکنڈ ڈویژن اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا نام لیا جارہا ہے اس لئے اگر معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہوجائے تو مناسب ہوگا ایگزیکٹو افسروں سے انکوائری کروانے کے مقابلہ میں۔ کیونکہ یہ بہت اہم معاملہ ہے اور سوال بھی ہے کہ 2010ء کے سیلاب کے دوران بھی زیادہ تباہی دریائی حدود اور کناروں پر ناجائز تعمیرات کی وجہ سے ہوئی تھی۔ بعدازاں انہی مقامات پر کیسے تعمیرات ہوگئیں۔ 
یہ امر بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ ناجائز تجاوزات ختم کرانے کے لئے پشاور ہائیکورٹ نے بھی حکم جاری کیا تھا اس حکم کے ’’لیروکتیر‘‘ ہونے میں مراد سعید اور محمود  خان کے اسمائے گرامی آرہے ہیں۔ 
تیسری بات، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے توہین عدالت کے نوٹس کے جواب میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں گزشتہ رز جمع کروائے گئے جواب کے  حوالے سے ہے۔ عمران خان کہتے ہیں’’غلط فہمی ہوئی، خاتون جج سے متعلق الفاظ واپس لینے کو تیار ہوں، جوش خطابت میں ایسے الفاظ استعمال ہوگئے۔ یہ بھی غلط فہمی ہوئی کہ خاتون جج ایگزیکٹو مجسٹریٹ ہیں‘‘۔ ان سطور میں تواتر کے ساتھ عمران خان کی خدمت میں عرض کرتا آرہا ہوں کہ میدان سیاست اور تقاریر کی دنیا کرکٹ گرائونڈ اور ڈریسنگ روم سے یکسر مختلف ہے ۔ الفاظ کے چنائو میں احتیاط کیا کیجئے۔ 
جب کبھی اس حوالے  سے معروضات پیش کیں تو نظریاتی انصافیوں کے ساتھ سابق جیالے و حاضر انصافی بے قابو ہوجاتے ہیں۔ سابق جیالے فوراً 1980ء اور 1990ء کی دہائی کی سیاست یاد کرانے لگتے ہیں۔ 
سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ پچھلی صدی کی نویں اور دسویں دہائیوں میں ہی کیوں جینے پر مُصر ہیں۔ فقیر راحموں کے خیال میں وہ ابھی وحشی جٹ، جٹ دا کھڑاک، گجر ان ایکشن وغیرہ نامی فلموں کے ’’سحر‘‘ سے نہیں نکل پائے۔ 
کالم یہاں تک لکھ چکا تھا کہ اطلاع ملی کہ نصف صدی سے خشک  دریا سکھ بیاس کے لئے بھی فلڈ الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔ دریائے کابل اور دریائے سندھ میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کی وارننگ جاری کردی گئی ہے۔ ضلع رحیم یار خان کے علاقے چاچڑاں شریف کے گردونواح کے سینکڑوں دیہات اور فصلیں سیلاب بُرد ہوگئیں۔ 
دریائے ستلج میں طغیانی سے بورے والا کے 9قصبے ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ سیلاب نے اب تک زراعت اور لائیو سٹاک کو 13سو ارب روپے کا نقصان پہنچایا  ہے۔ ادھر محکمہ موسمیات نے 14ستمبر سے بارشوں کے نئے سلسلے کے حوالے سے انتباہ جاری کردیا ہے۔ اب فیصلہ مختلف الخیال قائدین کو کرنا ہے کہ انہوں نے سیلاب زدگان کی مدد کرنی ہے یا ایک دوسرے کے گریبانوں سے الجھتے رہنا ہے ؟
 

بشکریہ اردو کالمز