145

سُر کی پکی۔۔۔۔نیرہ نور

ہم جن شخصیات سے متاثر ہوتے ہیں ان کے کمال کا پہلو سطحی طور پر زیر گفتگو لا کر سمجھتے ہیں حق ادا ہو گیا۔ نیرہ نور کی آواز ہمیشہ اس قدر پر تاثیر رہی کہ مجھے کبھی ان کی سادگی اور روحانی زندگی کو جاننے کی خواہش نہ ہوئی۔ سادگی کی صفت ان کے لئے اہم ہو گی جو گانا سننے کی بجائے دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ نور الہدی شاہ نمایاں حیثیت کی مالک نثر نگار ہیں ، ان کی نیرہ نور سے ملاقات بھی رہی ،وفات پر ایک بے تاثر تحریر لکھ دی جسے لوگوں نے دھڑا دھڑ سوشل میڈیا پر حلوے کی طرح تقسیم کیا۔جب قحط الرجال ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔عہد حاضر کی ایک بڑی گلو کارہ کا انتقال ہوا ہے اس کی گائیکی اور فن کو چھوڑ کر بتایا جا رہا ہے کہ وہ سادگی کا نمونہ تھیں اور فکری تبدیلیوں کے زیر اثرروحانیت کی طرف مائل ہو کر گانا چھوڑ چکی تھیں۔کوئی گانا کیسے چھوڑ سکتا ہے ،نیرہ نور کا وجود گانے سے مکمل ہوا وہ اپنے وجود سے الگ ہو کر کیسے زندہ رہ سکتی تھیں ، ہاں انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ کام کرنے سے معذرت کر رکھی تھی جو موسیقی کے معیار سے واقف نہ تھے ۔نیرہ کی آواز سر کا ایک بہائو ہے جو کانوں کو سدا بھلا محسوس ہوا۔وہ شو بز کا حصہ رہیں لیکن اس طرح کہ خود کو الگ رکھا۔ نیرہ نور کی گائی ہوئی تقریباً تمام غزلیں سن رکھی ہیں‘ انہوں نے فلموں کے لئے کم گایا لیکن جتنا گایا اس نے اعلیٰ موسیقی کا ذوق رکھنے والوں سے داد پائی۔نیرہ نور کی سب سے زیادہ سنی جانے والی غزل ’’اے جذبہ دل گر میں چاہوں‘ ہر چیز مقابل آ جائے‘‘ ہے۔بہزاد لکھنوی کی لکھی یہ غزل ماسٹر منظور حسین کی ترتیب دی گئی دھن پر گائی گئی۔فلم گھرانہ کا گیت ’’تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا‘‘ کس کے دل میں نہیں اترا۔اس کی موسیقی ایم اشرف نے دی۔پھر یہ مشہور نغمہ ’’روٹھے ہو تم‘ تم کو کیسے منائوں پیا‘‘ ہماری روح میں اترتا ہے۔آئینہ فلم کے اس نغمے کی موسیقی روبن گھوش نے ترتیب دی۔ بندش فلم کا نغمہ ’’اچھا اچھا لاگو رے‘ پیارا پیارا لاگو رے‘‘ بھی نیرہ نور کی آواز اور روبن گھوش کی موسیقی کا ملاپ ہے۔غزل اور رومانوی نغموں کے ساتھ ملی نغمے بھی گائے۔فلم فرض اور ممتا کا نغمہ ’’اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ ہم ایک ہیں‘‘ کس کا پسندیدہ نہیں۔اس کی موسیقی ایم اشرف نے دی۔نغمہ ’’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘‘ بہت مقبول ہوا۔پی ٹی وی کے ریکارڈ کئے گئے اس نغمے کی موسیقی خلیل احمد نے دی۔ نیرہ نور نے زیادہ تر نثار بزمی‘ جاوید اللہ دتہ‘ خلیل احمد‘ ارشد محمود‘ ایم اشرف‘ شاہد طوسی‘ ماسٹر منظور حسین اور روبن گھوش کی موسیقی پر گایا۔یہ سب اساتذہ ہیں۔ دراصل شعیب ہاشمی ،ثمینہ احمد ، نوید شہزاد اور شہریار زیدی کا ایک گروپ تھا ، پھر اسرار احمد ۔ان لوگوں نے فلمی اور مقبول لوک گائیکی کے مقابل تعلیم یافتہ طبقے کو جس موسیقی سے روشناس کرایا نیرہ نور اس کا حصہ تھیں۔ان لوگوں نے مارشل لا کے زمانے میں جمہوریت پسندوں کی محافل میں اعلیٰ معیار کی موسیقی پیش کی ۔ہارون عدیم دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ انیس سو اناسی میں لاہور ریڈیو سٹیشن جانا ہوا جہاں وہ غلام علی کے پاس بیٹھے تھے کہ فریدہ خانم آ گئیں، فریدہ خانم نے خان صاحب سے پوچھا کام کیسا ہے، غلام علی بر جستہ بولے: جس پروڈیوسر سے کام کا پوچھیں وہ کہتا ہے موسیقی حرام ہو چکی ہے ۔ یہ وہی زمانہ ہے جب نیرہ نور کا فن چمک رہا تھا۔ نیرہ نور سے پہلے بیگم اختر نے مومن خان مومن کا کلام ’’وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا‘ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘ گا کر دنیا سے داد وصول کی۔نیرہ نور بیگم اختر سے متاثر تھیں‘ انہوں نے یہی غزل اس سلیقے اور فنی گرفت کے ساتھ گائی کہ غزل کی دھن اور مومن کے کلام کو نئی زندگی دیدی۔روبن گھو ش اپنی اہلیہ شبنم کی اکثر فلموں کی موسیقی دیتے رہے۔جس فلم کے موسیقار روبن گھوش ہوتے وہ شبنم پر فلمائے نغمے کے لئے مہناز یا نیرہ نور کا انتخاب کرتے۔ نیرہ نور گانے کے دوران زیادہ سرگم گھمانے کے حق میں نہیں تھیں۔ ان کی گائیکی کا دبستان ہموار گلے کے ساتھ سُر پکڑ کر سیدھے سبھائو گانے کی تلقین کرتا ہے۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ نیرہ نے کسی سے گانا نہیں سیکھا وہ غلط ہیں،ان کی ریاضت اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ وہ سُر کی پکی اور موسیقی کو جانتی تھیں ۔یہی وجہ ہے کہ فریدہ خانم اور اقبال بانو جیسی گلو کارائوں کی موجودگی میں نیرہ نور نے اپنی گائیکی کی شناخت بنائی اور قدر دان پیدا کئے ۔وہ راگوں کو دھیمے انداز میں پیش کرتی تھیں۔ راگ بھیروی میں انہوں نے ایک بھجن بھی گایا۔ نیرہ نور بہت الگ تھیں‘ کالج کی تقریبات اور ریڈیو پاکستان لاہور پر گاتے گاتے انہیں اس وقت فلموں میں نغمہ سرائی کا موقع ملا جب 1973ء میں رونا لیلیٰ اور شہناز بیگم کے پاکستان سے بنگلہ دیش منتقل ہونے کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔نیرہ نور کے ملنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت خوش مزاج تھیں‘ کئی مشہور شخصیات کی نقل اتارنے میں انہیں کمال حاصل تھا۔ نیرہ نور نے کانن بالا کے 1930ء اور 1940ء کے زمانے میں گائے گیتوں کا انتخاب کیا۔ان گیتوں کو پہلے والی دھنوں میں نئے سازوں کے ساتھ ریکارڈ کیا گیا۔اس البم کا نام ’’یادوں کے سائے‘‘ ہے۔نیرہ نور کے شوہر شہر یار زیدی خود اعلیٰ درجے کے گلو کار ہیں‘ شہر یار زیدی نے ان نغموں کے حقوق حاصل کرنے کے لئے بہت محنت کی۔ برطانیہ میں مقیم ہمارے بزرگ دوست علی جعفر زیدی نے حالیہ دنوں جب اپنی ایک پوسٹ میں نیرہ نور کے صاحبزادے جعفر کی گائیکی کی تعریف کی تو میں نے جعفر کو سنا۔ شاہ حسین کی کافی مدت بعد کسی نئی آواز میں سنی۔گانے والا شاہ حسین کے کلام میں جذب ہو کر گا رہا تھا۔آنکھیں بند‘ معلوم نہیں جعفر کو کوک سٹوڈیو کے موسیقاروں اور سازندوں کے اشارے کیسے بند آنکھوں سے دکھائی دے رہے تھے۔یہ نیرہ نور کا روشن کیا ہوا چراغ ہے ۔ نیرہ نے یوں گایا کہ سُر کی پاکیزگی کا مفہوم سکھا دیا ،اللہ ان سے راضی ہو۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز