عہد قدیم و حاضر

قدیم و جدید معاشرہ کے ارتقائی عوامل کے مشاہدات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دونوں کی کیمسٹری ایک ہی ہے۔وقت گزرا ہے لوگ بدل گئے ہیں کردار بدل گئے ہیں، پس منظر اور منظر نامہ بالکل ایک ہی ہے۔

آج کے معاشرہ میں انسانیت کو اخلاقی لحاظ سے ابتر و کمتر سمجھا اور بیان کیا جارہا ہے لیکن درحقیقت حالات کا جائزہ تاریخی تناظر میں لیا جائے تو فقط کردار بدلے ہیں ماہ و سال بدلے ہیں لیکن انسان آج بھی اسی دوراہے پہ کھڑا ہے جہاں ہزاروں سال پہلے کھڑا تھا۔اب حالات کی سنگینی کا رونا رویا جا رہا حرص مال وزر کے پجاری اور لوگوں سے انسانیت کے خاتمے کی باتیں کی جاتیں ہیں جب کہ حالات اس کے برعکس ہیں۔مال و دولت کی پوجا حسد اور نفرت کل بھی سر بازار بیچ چوراہے پہ کھڑی تھی اور آج بھی آن بان اور پوری شان کیساتھ اپنے اہل وعیال سمیت کھڑی ملتی ہے۔  رویوں پہ، سوچنے سمجھنے کے زاویہ جات پہ معمولی فرق پڑا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو مشیت الہی سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے اور حال کی کوتاہیوں کو اخلاقی دیوالیہ پن سے منسوب سمجھا جا رہا ہے

ایک صدی قبل حضرت  میاں محمد بخش رحمۃاللہ علیہ  اپنے کلام سیف الملوک میں "بھائی بھائیاں دی بانہواں" کا ذکر کرتے ہیں تو ہزاروں سال پہلے حضرت موسی علیہ السلام اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنا مددگار اور پیغمبری عطا کیے جانے کے لئے بھی دعا گو نظر آتے ہیں۔ موجودہ نفسا نفسی مادی اور اخلاقی زبوں حالی کے دور میں بھائیوں کے باہم لڑائیوں کو مثال بنانے والے ہزاروں سال پہلے ہابیل وقابیل کو فراموش نہیں کر سکتے۔جو نسل انسانی کے ابتدائی دور میں جانی دشمن بن بیٹھے۔ ہزاروں سال پہلے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکنے والے  بھائیوں کی مثال بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

آج سود کو سرمایہ کاری کے نام سے مختلف عذرات میں حلال گردانا جا رہا صدیوں پہلے یوم السبت کا عذر بھی تاریخ کا حصہ ہے۔

آج شعائر اسلام کا مذاق منایا جارہا ہے تو ہزاروں سال پہلے حضرت یحیی علیہ سلام کی اونٹنی کو پتھر مارے جارہے تھے۔آج کفران نعمت کے مرتکبین من وسلوی کو بھول چکے ہیں۔آج شریف زادیوں پہ تہمتیں لگ رہی ہیں تو مریم علیہ السلام پہ بھی کیا کیا بہتان باندھے گئے کس کس معاملہ کو حال اور ماضی میں تلاش کروں جہاں حد نظر ہے وہیں اسباق ماضی، پس فرق اتنا ہے کہ ہم نے ماضی کے واقعات سے اسباق سیکھنا ہے اپنے آپ کو اخلاقی کردار سازی کے حوالہ سے مضبوط بنانا ہے۔ایمانداری کو شعار بنانا ہے

موجودہ دور میں مہذب ترقی یافتہ اقوام عالم نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے ہم آج فرقہ بندی کے جال میں جھکڑے پڑے ہیں۔اپنے ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے مزید بگاڑ پیدا کیا ہے

امریکہ نے جاپان پہ ایٹمی حملہ کیا تو بدلے میں جاہان نے  لاکھوں چیری کے درخت امریکہ میں دریا کنارے  میں لگوائے جب چیری پہ پھول کھلتے ہیں تو اس دلکش چیری بلاسم کو دیکھنے کےلیے دنیا بھر کے لاکھوں سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں اور دل ہی دل میں جاپانیوں کے لیے محبت اور امریکی اقدامات پہ نفرت کرتے ہیں۔یہی مہذب قوم کے طور پہ اخلاقی لحاظ سے جاپان کی فتح ہے۔

آج ہم اگر اپنے ماضی کے مسائل سے موجودہ حالات میں چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پہ عمل پیرا ہونا ہو گا۔ سچائی کا دامن مضبوطی سے تھامنا ہو گا۔معاشرہ میں پیار محبت کے فروغ کےلیے انصار مدینہ جیسا ایثار پیدا کرنا ہوگا۔عدل و انصاف کے فروغ کےلیے اس مثال پہ عمل کرنا ہو جو آپ نے فرمایا تھا کہ اگر میر میری بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کٹوا دیتا۔ایمانداری کو اپنا شعار بنانا ہوگا کہ جان کےدشمن بھی صادق اور امین کےلقب سے یاد کریں۔ شرافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہو گا۔

 

بشکریہ روزنامہ آج