موجودہ سیلاب کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے آیا اسے ماہرین دریائی سیلاب نہیں بلکہ فلیش فلڈ کہتے ہیں نیلم میں ایک جگہ کچھ لمحوں میں کلاؤڈ برسٹ سے نالے میں طغیانی آگئی اور نوجوان سیاحوں کا گروپ اس کی نذر ہو گیا اس لئے کلاؤڈ برسٹ کا سیلاب وقت بھی نہیں دیتا ، 2010ء میں پاکستان میں آنے والا سیلاب تباہی کی داستان رقم کر گیا تھا ، جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور کے ایک آدمی نے بتایا کہ میری عمر نوے سال ھے میں نے زندگی میں اتنی تباہی نہیں دیکھی ، بادل ایسے پھٹے ہیں کہ بارشوں نے سندھ ، بلوجستان ، جنوبی پنجاب ، سوات ، چترال ، ٹانک ، اور کئی دوسرے بارانی علاقوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا ، پاکستان میں ایک عرصہ سے زیر زمین پانی کی سطح نوے فیصد گر چکی تھی خصوصی جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں یہ کمی خطرناک حد تک پہنچ گئی تھی مگر اس مرتبہ زمین کے اندر پانی جمع کرنے کی صلاحیت۔ بھی ختم ہو گئی اس لیے اسے فلیش فلڈ کہا جاتا ہے ، دریا معمول کے مطابق بھپرتے ہیں لیکن اس سال زمین بپھر گئی بلکہ پانی اٹھا کر باہر پھینک رہی ہے ،جس نے سب سے زیادہ سندھ ، بلوجستان اور جنوبی پنجاب کو بری طرح متاثر کیا ، این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق 14 جون سے اب تک ھونے والی بارشوں سے 1061 افراد ھلاک ھو چکے ہیں ، جبکہ 1527 زخمی ہوئے ، جن میں 456 مرد ، 207 خواتین ، اور 348 بچے شامل ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کا ڈیٹا میسر اسکا ، جو بے نام مرے ان کا کوئی اندازہ نہیں ، سیلاب سے 3457.5 کلومیٹر سڑکوں کو شدید نقصان پینچایا جبکہ 157 پل ، 170 دکانیں ، دس لاکھ گھر اور عمارتیں تباہ ھو گئیں سات لاکھ ، ستائیس ھزار ایک سو چوالیس مویشی ھلاک ھو چکے ہیں ، جس کا اصل تخمینہ بحالی کے بعد لگایا جا سکے گا تاہم 10 ارب ڈالر کا مجموعی نقصان ھو چکا ھے ، ایسی قیامت کہ زندگیاں ایک روٹی کی محتاج اور دیہاتوں کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ،
عموما ھماری روایت ہے کہ سیاسی رہنما، حکمران ھیلی کاپٹر پر بیٹھ کر دورے کرتے ہیں اور مزے سے واپس رات اپنے آرام دہ بستروں پر سوتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ 2005 کے زلزلے یا اس سے قبل کوئی ادارے وجود میں نہیں آئے جو کسی حکمران کی دوڑ کے بغیر خود اپنا کام شروع کر سکے ، این ڈے ایم اے اعدادوشمار، پیشگوئیوں اور مختلف وباؤں کے پیچھے بھاگنے تک ھے کوئی ریسکیو، بحالی اور ایسا نیٹ ورک نہیں بنایا جا سکا جو کمیونٹی کو انوالو کرکے کم از کم ریسکیو کا انتظام کر سکے، دنیا میں لیڈروں کا یہ کام نہیں کر وہ ھیلی کاپٹروں پہ گھومتے رہیں، وہ اپنے آفس میں بیٹھ کر اداروں کی نگرانی کر سکتا ہے، مگر عادت اور مفاد کے ھاتھوں مجبور داد رسی کے نام پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کر آتے ہیں، سال ہا سال کچھ نہ کچھ ھوتا رہتا ہے مگر تاریخ سے سبق سیکھنے اور کام میں حقیقت پسندی کا رجحان پیدا نہیں ھو رہا ، مریم نواز صاحب ملتان سیلاب متاثرین کے پاس جا رہی ہیں یا انتخابی مہم کے لیے ، عمران خان جاتے ہیں تو کیا مقصد سیاست ھے ، وزیراعظم کہیں جائیں یا بلاول بھٹو زرداری دعویٰ یہ ہے کہ عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ، آپ کیا کر سکتے ہیں ،۔ ایک سیلاب سے متاثرہ فرد کو کس چیز کی ضرورت ہے ؟ اس پہ کوئی سوچ نہیں ، ریسکیو میں کیا صلاحیتیں پیدا کی جا سکتی ہیں ، بارش اور سیلاب کے پانی کو محفوظ کیسے کیا جا سکتا ہے کوئی منصوبہ بندی نہیں ، یہ امر افسوسناک ہیں ،
عالمی سطح پر سب اپیل کر رہے ہیں ، لیکن کیا ملکی کی اندرونی سیکورٹی کے لیے غیر ملکی اداروں پر اعتبار کیا جا سکے گا ؟ اس پہ بھی توجہ کی ضرورت ہے ، آج پوپ نے بھی ویٹگن سے بیان جاری کیا ہے کہ پاکستان کی مدد کی جائے عملی طور پر ترکیہ اور یو اے ای کی مدد پہنچی ہے مگر دس ارب ڈالر کا نقصان پورا ھونے میں آن گنت سال لگیں گے ،
یہ سیلاب تھا یا عذاب دیکھنے والے حیران اور پشیمان ہیں کہ کتنا بڑا طوفان آیا اور سب کچھ بہا کر لے گیا فطرت کا اپنا ایک نظام ہے اسے چھیڑا جائے تو وہ انتقام ضرور لیتی ہے ھم فطرت کو باقاعدہ زخمی کر دیتے ہیں مرضی سے ہر چیز کا رخ موڑتے ہیں اور لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالتے ہیں کوئی ٹاؤن پلاننگ نہیں ، گھروں اور مارکیٹوں کی کوئی ترتیب نہیں ، ایک بے ھںگم ابادی اور تعمیر نے سب کچھ بے قاعدہ کر دیا ، پھر کلاؤڈ برسٹ تو ھونا ھے ،وسطی پنجاب سیلاب سے محفوظ رہا اس کی بنیادی وجہ دریائی سیلاب کا نہ ہونا ہے اس وقت دو صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ھے ، ایک میں پیپلز پارٹی کی اور بلوجستان حکومت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے ، سیلاب سے سب سے زیادہ سندھ ،پھر بلوجستان اور جنوبی پنجاب زیادہ متاثر ہوئے ہیں ، خیبرپختونخوا میں سوات اور ٹانک سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں ، جن کی بحالی کے لیے اقدامات ھوتے رہیں گے پیپلز پارٹی کے لئے سندھ بچھ جاتا ہے مگر انہوں نے طویل عرصے تک سندھ میں حکومت کی مگر لوگوں کا معیار زندگی بدلنے میں کوئی کردار نہیں مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت ھے چاروں پانچوں حکومتوں میں مشترکہ حکمت عملی میں واضح فرق ھے ، جس سے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں کورڈینشن کا واضح فقدان ہے دل تو بہت کچھ کرتا ہے کہ سیلاب میں پھنسے لوگوں تک پہنچیں مگر آفت بڑی اور بھیانک ھے جہاں تک ممکن ہو اقدامات کیے جائیں ،
141