219

محروم طبقات کو بہہ جانے دیں

پانی کا منہ زور ریلہ آیا ،دریائے سوات کے کنارے کثیر المنزلہ ہوٹل منہدم ہو گیا۔پانی نے ایک پہاڑی سڑک کو ٹکر ماری‘ کئی گاڑیاں بچ گئیں مگر ایک وین اپنے مسافروں اور سڑک کے ملبے سمیت بہہ گئی‘ پانچ نوجوان بپھرے ہوئے پانی کے نرغے میں آ گئے۔کسی طرح سے پانی سے سر نکال کر کھڑے ایک بڑے پتھر پر جا پہنچے۔رشتہ دار اور احباب کنارے کھڑے فریاد کرتے رہے۔مقامی انتظامیہ سے ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کی اپیل کی‘آخر چار گھنٹوں کے بعد پانچوں پانی کی قبر میں اتر گئے۔ایک منظر آنکھوں میں گڑسا گیا ہے۔ چارپائی پر کچھ سامان اور بیوی بچے لادے ایک نوجوان پانیوں سے لڑ رہا ہے‘ ایک ہاتھ سے چار پائی پکڑی ہوئی ہے‘ دوسرے سے تیر رہا ہے۔پیچھے دور دور تک پانی ‘ بازو شل ہو چکا ‘ لگتا ہے کنارے پر پہنچنے تک حوصلہ ہے‘ پہنچتے ہی بے ہوش ہو جائے گا۔ایک مکان ہے‘ بلکہ مکان تھا۔چھت بہہ چکی‘ دیواریں منہدم‘ کیچڑ میں کچھ بھیڑیں مری پڑی ہیں۔کچھ کے بال مٹی کا پلستر بنے ہوئے ہیں‘ بھوک اور نقاہت سے بے دم ہیں۔ ایک گھر کے مکین جا چکے ہیں۔صحن میں آیا پانی اتر گیا ہے‘ لاش پڑی ہے ،سیلابی مٹی نے سارا بدن چھپا لیا ہے‘ دو ہاتھ باہر رہ گئے ہیں۔ سیلاب ایک وحشی بھینسے کی طرح بستیوں اور گاڑیوں کو اچھالے جا رہا ہے۔لوگوں کے دل دہل رہے ہیں ، رسوں اور آوازوں سے بھلا کوئی کتنی دیر پانی کے مقابل کھڑا رہ سکتا ہے ؟ دیواریں جھک جھک کر دیکھتی ہیں اور اسی لمحے پانی ان کی گردن دبوچ لیتا ہے ۔ایک تھرتھراہٹ ہے جس نے جھنجھوڑ دیا ہے ۔ للکارتی لہروں کو جانے کس حریف کی تلاش ہے ۔ ضدی ہو کر اودھم مچائے ہوئے ہیں۔کچھ دیر دم لیتی ہیں، اس طرح جیسے قوت مجتمع کر رہی ہوں ۔ایک منٹ ۔ اور پھر حملہ کر دیتی ہیں۔ تباہ کن سیلاب ہلاکتوں کی طرف دھکیلتے ہیں۔ سورج سے زیادہ تیز دوڑنے والا سیلاب ،تنکے، پگڈنڈی اور موڑ ۔سب کچھ بہا لے گیا ۔ جھاڑیاں ، باڑیں ، ریل کے ٹریک اور بیٹیوں کی گڑیاں۔سب کچھ ۔سوگواری ماتمی لباس میں بھٹک رہی ہے۔پانی کے راکشسوں نے پگڈنڈیوں کو چھپا دیا ہے ۔سیلاب کی دھاڑ ایک بلا بن کرہمارے شہروں کو کھانے کے لئے بھٹک رہی ہے۔ آنکھ سے اشک بہانے کو درد کا ایک لمحہ کافی ہوتا ہے‘ یہاں تو ہزاروں درد بکھرے پڑے ہیں‘ اتنے کہ چُنے بھی نہیں جا سکتے۔اب کانچ کے انہی ٹکڑوں پر چلنا ہے۔پچھلے کئی برسوں سے لکھ رہا ہوں‘ بتا رہا ہوں کہ عذاب ماحولیاتی بگاڑ سے آ جایا کرتے ہیں۔دراصل ماحولیاتی بگاڑ بھی انسان کی غلطی سے پیدا ہوتا ہے۔جو سڑکیں بہہ گئیں‘ جو ڈیم ٹوٹ گئے‘ وہ ناقص میٹریل سے بنے تھے۔ایسا نہیں تو انگریز عہد کے بنے پل اور سڑکیں اب تک کیوں موجود ہیں۔ سیاحتی مقامات پر مقامی انتظامیہ نے رشوت یا کسی دبائو کے باعث لوگوں کو دریائی گزر گاہ میں ہوٹل بنانے کی اجازت دیدی۔پانی کا بہائو بڑھنے سے دریا میں موجود ستون اکھڑ گئے۔ ملک کے اکثر علاقوں میں میرے دوست اور قارئین کی خاصی تعداد موجود ہے۔وہ جو صورت حال بتا رہے ہیں اس سے بننے والی مجموعی تصویر بہت خوفناک ہے۔کھیتوں میں سیلاب اترنے کے بعد مٹی کی تہہ آئے جائے گی۔ زمینوں کی حد بندی اور نشاندہی کے لئے پٹواری پھر سے اہم ہو جائے گا۔پٹواری جو زمیندار کے ساتھ کرتا آیا ہے وہ بتانے کی ضرورت نہیں‘900ارب روپے سے زائد کی فصلیں برباد ہو چکی ہیں‘ کپاس گوداموں میں پڑی ہے اور اس کے بیج پھوٹ پڑے ہیں‘ گندم ‘ چینی اور کھاد کے سٹاک سیلابی پانی میں خراب ہو گئے ہیں۔نوے فیصد کچے مکان گر چکے ہیں‘ جو باقی ہیں وہ رہنے کے قابل نہیں رہے۔ سرکاری خزانہ ہمیشہ خالی بتایا جاتا ہے لیکن اس میں اتنی گنجائش رہتی ہے کہ 25‘30اراکین پارلیمنٹ کو یورپ کی سیاحت کے لئے بھیج سکے۔ قوم کے ان دامادوں کو خوش رکھنا ضروری ہے‘ پوری قوم حکمران اشرافیہ اور افسر شاہی کو پالتے پالتے بھکاری بن گئی لیکن یہ ہماری جان نہیں چھوڑ رہے۔وزیر خارجہ سے کوئی پوچھے کہ بین الاقوامی تعلقات تو آرمی چیف کی وجہ سے فعال ہیں۔ پانچ ماہ سے انہوں نے جو دورے کئے ان سے کیا فائدہ ہوا۔سپیکر راجہ پرویز اشرف دورے کی بجائے سیلاب متاثرین کے لئے فنڈز عطیہ کر سکتے تھے‘ کپتان کا ڈی آئی خان میں استقبال تو دیکھ لیا ہو گا۔سیلابی پانی میں استقبالیہ راہداری بنائی گئی۔گملے رکھے گئے‘ قناتیں لگائی گئیں۔ یہ سب ناقابل قبول ہے۔ مصیبت زدہ عوام کے رہنما اس قدر غیر ذمہ دار نہیں ہوتے جس قدر ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں۔جب سے تباہی اور بربادی کے منظر دیکھے ہیں‘ ایک سیلاب دل میں ٹھاٹھیں مارنے لگا ہے۔ سیلاب نے بتا دیا ‘ ہماری ترجیحات غلط ہیں۔ہمیں پانی کے راستے میں گھر اور ہوٹل نہیں بنانے چاہئیں۔ ہمیں پانی کو دھتکارنے کی بجائے اس سے پیار کرنا چاہیے۔جھیلیں اور ڈیم بنا کر اسے اپنے پاس جگہ دینی چاہیے۔آلودگی پھیلانے کا سلسلہ بند کرنا ہو گا ورنہ صفائی کا قدرتی نظام متحرک ہو جائے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیلاب کسی نئے محاذ پر حملہ کر رہا ہے‘ پہلے بلوچستان‘ جنوبی پنجاب‘ سندھ ‘ کے پی کے ‘ گلگت بلتستان اور اب آزاد کشمیر سے ہولناک اطلاعات آ رہی ہیں۔ خیبر پی کے میں کئی شہر خالی کرا لئے گئے ہیں۔ چارسدہ کے ایک پل پر سے خوفزدہ گھردار خواتین بھاگتے ہوئے گزر رہی ہیں۔ ہماری حکومتیں اور ادارے سیاسی لڑائی لڑ رہے ہیں‘ انہیں اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔اس وقت تک جب تک کہ محکوم طبقات کا آخری فرد بھی پانی میں نہ بہہ جائے‘ پھر یہ ملک‘ اس کی زمین ‘ اس کے دریا‘ اس کے ڈیم‘ اس کے کھیت اور اس کی موٹر ویز پر حکمران اشرافیہ تن تنہا مختار ہو گی۔ارب پتی لوگ اپنا نیا پاکستان بنائیں گے۔ہر طرف ہریالی ہو گی‘ جنت نظیر ہائوسنگ سوسائٹیاں ہوں گی۔گولف کورس ہوں گے اور نیلا آسمان ہو گا۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز