112

پاکستان کو ڈوبنے سے بچائو۔

اس وقت ملک بھر میں شدید بارشوں ، ندی نالوں میں طغیانی کے باعث پاکستان سمیت آزادکشمیر کے علاقے متاثر ہوئے ، سول انتظامیہ اور حکومت پی ٹی آئی لاپتہ ، کوئٹہ بلوچستان پاکستان کے دیگر علاقوں سے کٹ کر رہ گئے تین کروڑ سے زائد افراد بے گھر، حکومتی اراکین بیرون ملک دوروں پر جبکہ پی ٹی آئی اپنی کرسی کی جنگ میں جلسے جلوسوں پر زور ، ایک جلسے پر یومیہ تین کروڑ روپے لاگت آرہی  ہے ، سیلاب زدگان کے پاس نہ ادویات نہ خیمے نہ کھانے پینے کی اشیاء ، بچے بوڑھے کھلے آسمان تلے بارش میں بسر کررہے ہیں ، عوام کا کوئی پرساں حل نہیں جبکہ پاک آرمی نے 5دن کی تنخواہ سیلاب زدگان کی بحالی پر خرچ کرنے کا اعلان کردیا، مختلف تنظیموں کی جانب سے امدادی سرگرمیاں جاری جس سے سیلاب میں پھنسے ہوئے خاندان زندہ ہیں جبکہ پاک آرمی کے شانہ بشانہ کام کرنے والی جماعت جو ایسے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی مگر پی ٹی آئی کی حکومت میں بھارت کو خوش کرنے کیلئے حافظ سعید پر پابندی لگادی جو پاکستان کی عوام کے ساتھ ایک بڑی زیادتی کی گئی ہے جبکہ اس وقت پاکستان اور آزادکشمیر میں تقریباً15سو سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں ، اربوں روپے کی املاک تباہ ہوگئی جبکہ کروڑوں روپے کے مال مویشی بھی بہہ گئے مگر جو حکمران عوام کی خدمت اور مدد کیلئے ووٹ مانگتے تھے وہ آج غائب ہیں اور عوام در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جبکہ صرف سندھ میں25 لاکھ گھر تباہ ہوئے جبکہ بارشوں اور سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد 935ہے جبکہ سوات میں سیلاب 2010ء کے مقابلے اس بار زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔جبکہ 24گھنٹے میں مزید 34افراد جاں بحق ہوئے جبکہ متاثرین کی تعداد ساڑھے 42لاکھ سے بڑھ گئی جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق سوات میں 20 بچے 15مرد 10خواتین جاں بحق ہوئی جبکہ 1343افراد زخمی ہوئے ، بدھ کے روز خیبر پختون خواہ میں 16افراد، بلوچستان میں 13، پنجاب میں 2افراد جبکہ 2لاکھ 15ہزار افراد امدادی کیمپوں میں مقیم ہیں جبکہ 24گھنٹوں کے دوران سندھ میں 13افراد جاں بحق ہوئے جبکہ بلوچستان میں مجموعی 300افراد جاں بحق ہوئے۔سیاست کی بے حسی ملاحظہ کریں۔ سیلاب نے پاکستان بھر میں بالعموم جب کہ بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب کے چند علاقوں، کشمیر اور گلگت بلتستان میں بالخصوص تباہی مچا کر رکھ دی ہے۔سینکڑوں افراد جاں بحق ہو چکیہیں اورہزاروں گھر تباہ ہونے سے لاکھوں کی تعداد میں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، مال مویشی بھی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ کچھ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے تباہی و بربادی کے جو مناظر دکھائی دے رہے ہیں وہ دل کو انتہائی افسردہ بلکہ زخمی کر رہے ہیں۔ سڑکیں، پل اور کئی ڈیم غائب ہوگئے ہیں، انفراسٹرکچر بُرے طریقے سے متاثر ہوا ہے اور بارشیں ہیں کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ اس آفت سماوی کے متاثرین میں بچے، عورتیں اور بوڑھے سب ہی شامل ہیں اور انتہائی تکلیف میں ہیں۔ اس سال کی بارشوں نے وہ تباہی مچائی ہے کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی لیکن ہمارے سیاستدان اپنی اپنی سیاست میں ایسے مگن ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ حکومتیں اور وزراء عمومی طور پر فوٹوسیشن میں مصروف ہیں لیکن اس آفت سے متاثرہ لاکھوں خاندانوں کی دیکھ بھال اور اُن کے مالی نقصان کو پورا کرنے کیلئے ابھی تک ایک بھی ایسی میٹنگ نہیں ہوئی، جس میں ہمیں وزیراعظم اور صوبائی وزرائے اعلیٰ دیگر ذمہ داروں کے ساتھ بیٹھے کوئی متفقہ حکمتِ عملی بناتے ہوئے نظر آرہے ہوں کہ کیسے متاثرین کی مدد کی جائے، کیسے اُن کی زندگیوں کو سماجی اور معاشی طور پر بحال کیا جائے اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کیا جائے؟ اس وقت مرکز میں ن لیگ کی قیادت میں اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف یا اُن کی حمایت یافتہ حکومتیں ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی اور بلوچستان میں بھی مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔ سیلاب نے کم و بیش سارے پاکستان اور پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے،چنانچہ ان تمام حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کا اخلاقی و حکومتی فریضہ ہے کہ اپنے اپنے سیاسی اختلافات اور جھگڑوں کو چند ایک ہفتوں کے لئیایک طرف رکھ کر سیلاب زدگان کی مدد اور اس آفت سے ہونے والی تباہی سے نبٹنے، گھروں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر اورمتاثرین کی معاشی بحالی کے لئیدن رات ایک کر دیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کو تمام وزرائے اعلی بشمول وزیر اعلیٰ پنجاب،خیبر پختون خوا، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سے خود بات کر کے فوری بین الصوبائی کانفرنس بلانی چاہئے تاکہ تمام ممکنہ وسائل کو سامنے رکھ کر اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک قومی حکمتِ عملی وضع کی جائے۔ عمران خان کا فوکس بھی اپنی احتجاجی سیاست تک ہی محدود ہے۔ اُنہوںنے ابھی تک اپنی تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں سیلاب اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا کوئی خاص ذکر نہیں کیا۔ خان صاحب کو خود میدان میں نکلنا چاہئے، اُن کو بلوچستان، سندھ، کے پی، جنوبی پنجاب، کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کا دورہ کرنا چاہئے اور متاثرین کی امداد کے لئے عوام سے عطیات جمع کرنے کی مہم چلانی چاہئے لیکن وہ تو احتجاج اور ٹکراو? والی سیاست میں ایسے مصروف ہیں کہ کسی اور طرف دیکھنے کا اُن کے پاس وقت ہی نہیں۔ اُدھر سیلاب سے سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکیہیں، لاکھوں اپنے گھر، مال مویشی بلکہ سب کچھ کھو چکے ہیں لیکن وفاقی اور پنجاب کی حکومتیں اپنے اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات بنانے اور گرفتاریاں کرنے میں مصروف ہیں۔سیاست کی یہ سردمہری اور بے حسی انتہائی مایوس کن ہے۔ سوشل میڈیا میں سیلاب سے جاں بحق ہونے والے بچوں اور بڑوں کی کیچڑ سے لتھڑی میتوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کچھ فلاحی تنظیمیں، خصوصاً اسلامی فلاحی تنظیمیں جہاں جہاں ممکن ہے سیلاب زدگان کی ہر ممکن مدد کر رہی ہیں لیکن یہ سانحہ اتنا بڑا ہے کہ اس کیلئے ریاست کو فعال ہونا پڑے گا، تمام حکومتوں کو یکجا ہو کے مشترکہ حکمتِ عملی بنانا پڑے گی۔ کیا ایسا ہو پائے گا یا نفرت کی سیاست کی ہی جیت ہو گی اور سیلاب کے متاثرین اور مرنے والوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا؟
 

بشکریہ اردو کالمز