2035

کھڑک سنگھ ، کھڑک گیا

جسے تخلیق کرکے میدان میں اتار کر بدنامی اپنے سر لی، آج وہی تخلیق کاروں کے لیے دردِ سر بنا ہواہے۔ پتا نہیں مقتدرہ کے جہاندیدہ اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حاملین نے پرکھنے میں اتنی بڑی غلطی کیوں کی اور آج ملک اسی غلطی کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔

تحریک انصاف کو پاکستانی سیاست میں داخل کرنا ہی ایک غلطی تھی لیکن اس کو اقتدار میں لانا تو بڑی غلطی اور سیاسی تاریخ کا وہ تلخ ترین باب ہے جس نے پورے معاشرے میں نفرت اور مبالغہ آرائی کا بیج بویا۔ اب پی ٹی آئی کے گالم گلوچ بریگیڈکی دیکھا دیکھی دوسری سیاسی پارٹیاں بھی شائستگی کا دامن چھوڑ کر گالم گلوچ کی طرف رواں دواں ہیں۔

 

گالی کلچر اور اس کے پھیلتے ہوئے تعفن کا علاج کر بھی لیا جائے تب بھی اس کے اثرات تادیر ہمارے معاشرے اور ملکی سیاست پر حاوی رہیں گے۔ ہم نے اسی کالم میں بڑی تفصیل کے ساتھ یہ بات رقم کی تھی کہ عمران خان سیاستدان نہیںہیں‘ ان کی سوچ آج بھی کرکٹ کے کھیل تک محدود ہے جیسے کرکٹ ٹیم کا کپتان سوچتا ہے اور کھلاڑیوں کو ہینڈل کرتا ہے‘ عمران خان کی سیاست اسی طرز کو فالو کر رہی ہے۔

 

 

میرا مشاہدہ ہے، ملکی سیاست اور سیاست دانوں سے ذی شعور عوام بیزار اور لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں، بنیادی وجہ مسلسل گرتی ہوئی معاشرتی اقدار اور گالم گلوچ کا کلچر ہے جو اب ٹی وی ٹاک شوز سے ہوتے ہوئے ہمارے گھروں اور محلوں میں سرائیت کر رہا ہے۔ ہمارے جیسے متوسط طبقے کے لوگوں کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے اخلاق اور عزت و احترام کے علاوہ ہے ہی کیا؟

عمران خان کے منشور میں سیاسی مخالفین کو عزت و احترام دینا ممنوع ہے، گالم گلوچ اور بدتمیزی منشور کے عین مطابق ہے۔ تبدیلی کی سطور میں تواتر کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ عمران خان کی سیاسی اور انتظامیہ غلطیاں قابل معافی اور قابل علاج ہیں مگر دوسروں کو بے توقیر کرنے اور گالم گلوچ سے مغلظ طرزکی سیاست ان کے مخالفین کی نظر میں قابل معافی نہیں ہے۔اس کلچر نے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیاہے اور یہ کینسر (ناسور ) کی طرح لا علاج ہے۔ اب تو حد کر دی گئی‘ پاک فوج کے شہداء کو نہیں بخشا گیا‘ پاک فوج کے سربراہ کی تضحیک کی گئی‘ ایسا تو کبھی مودی نے بھی نہیں کیا لہٰذا تضحیک کا یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے عمران نیازی تک پہنچ کر رہے گا، یہی مکافات عمل اور قانون قدرت ہے۔آج ہر محب وطن ذہنی دباؤ اور اضطراب میں مبتلا ہے۔

 

عمران خان کو اقتدار ملا تو ساڑھے تین سال کے دوران اس نے اپنی تعریف اور دوسروں کو چور اور ڈاکو پکار کر ان کی تذلیل اور کردار کشی کو اپنا نصب العین بنائے رکھا اور پوری استقامت کے ساتھ دن رات صرف یہی کرتا اور کرواتا رہا۔ وزرا، مشیر صبح شام ان کی خوشنودی کے لیے یہی کرتے رہے اور ریاستی امور سے لاتعلق رہے جس کی وجہ سے ملک تباہی اور معاشی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر آکھڑا ہوا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے فالورز ان سے محبت کرتے اور اسی اندھی محبت و تقلید نے ہماری نوجوان نسل کو بداخلاقی کی دلدل میں پھنسا دیا۔ اوپر سے سوشل میڈیا سونے پر سوہاگہ ثابت ہوا، ہر بندے کا اپنا ذاتی ٹی وی چینل ہے جس پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں، جس کے منہ میں جو آتا ہے سارا دن بکتا رہتاہے اور ملک کے وقار اور سلامتی تک کو داؤ پر لگانے کو تیار ہے۔ بلکہ حساس ترین قومی اداروں پر ایسی تنقید کرتے نظر آتے ہیں جو دشمن بھی نہیں کرسکتا۔

عمران خان کے چیف آف اسٹاف، شہباز گل عرف کھڑک سنگھ پاک فوج کے جوانوں کو بغاوت پر اکسانے کے جرم میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں، موصوف کی زبان درازیوں سے کون واقف نہیں؟

ٹاک شوز میں کسی سیاسی مخالف کی عزت ان کی زبان درازی سے محفوظ نہیں رہی،کئی سینئر اینکرز اور رپورٹرز بھی ان کی بد تہذیبی اور بد کلامی کا شکارہو چکے ہیں۔جب کسی کواسی کی غلطی کا احساس نہ دلائے اور اسے ہلہ شیری دے توپھر یہی اس کا شعار اور عادات بن جاتی ہیں۔پی ٹی آئی کے اکثر لوگ اس عادت کا شکار ہیںکیونکہ ان کا کبھی احتساب نہیں ہوا۔ میرے خیال میں شہباز گل کو کسی کی ماں بہن کی آہ اور بددعا ہی ہے کہ آج نشان عبرت بنا ہوا ہے۔

شہباز گل جیسے بندے کو عمران خان کا چیف آف اسٹاف دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے‘ سوچ آتی ہے کہ امریکی یونیورسٹی میں پڑھانے والے پروفیسر کو کیا پڑی تھی کہ اتنا اچھا کیرئیر چھوڑ کر پاکستان کی پہلے سے گندی سیاست میں مزید گند گھولنے کا بیڑا اٹھائے۔ موصوف کے لب و لہجے اور انداز بیان کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ شخص امریکا کی کسی یونیورسٹی میں طلبہ کو پڑھاتا رہا ہے۔ سیاسی مخالفین پر گند اچھالتے اچھالتے اس نے اپنے قائد کے تخلیق کاروں کو بھی نہیں بخشا۔ ایک وقت تھا جب پی ٹی آئی کے کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے صرف کھڑکیاں کھڑکتی تھیںلیکن پولیس ریمانڈ کی باری آئی‘ تو پتہ چلا کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑکتا ہے کھڑک سنگھ۔

شہباز گل کی گرفتاری کے بعد عمران سمیت پی ٹی آئی کے لیڈران نے شہباز گل کے بیان سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا مگر عمران خان سمیت اسے قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

شہباز گل کیس کی چال بتا رہی ہے کہ معاملہ حساس نہیں بہت ہی حساس ہے اس لیے عمران خان نے تشدد تشدد کا شور مچانا شروع کردیا، جب دال نہ گلی تو ملک گیر سطح پر ایک شخص کے لیے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، اسلام آباد کے اجتماع سے خطاب میں عادت سے مجبور کپتان نے آئی جی پولیس اسلام آباد اور ریمانڈ دینے والی خاتون مجسٹریٹ کا نام لے کر دھمکیاں دے ڈالیں۔

ہماری بد قسمتی ہی ہے کہ ہم پر ایک ایسا شخص مسلط رہا جسے دین و دنیا کے اقدار و دستور کا کچھ پتا نہیں، حالات واقعات کو اسلامی ٹچ دینے کے لیے مشہور عمران خان جب بھی دینی معاملات میں بولے اس نے مسلمانوں کے دل دکھائے۔ جس کی تازہ مثال برطانوی اخبار دی گارڈین کو دیے گئے انٹرویو کی ہے۔ قومی و سوشل میڈیا پر مسلمانوں نے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا تو انھوں نے فوراً یو ٹرن لیا اور کہا کہ میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔

عمران خان کے دراصل دو چہرے ہیں جس وقت جس کی ضرورت ہو لگا لیتا ہے۔ ایک چہرہ لبرل اور دوسرا اسلامی ٹچ اور خوددار پاکستانی والا۔

بشکریہ ایکسپرس