166

شہرِ خوباں

میڈرڈ سے ہم نے ایبیزا کی پرواز پکڑنی تھی جو ہمیں پچاس منٹ میں ایبیزالے گئی۔ یہ اسپین کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جو ایک جزیرے پر آباد ہے ، چھوٹے شہر سے آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ یورپ کاکوئی قصبہ ہے، یہاں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور یہ شہر اپنے نائٹ کلبوں، بوٹ پارٹیز اور خوبصورت ساحلوں کی وجہ سے مشہور ہے یوں اسے آپ ’پارٹی سٹی ‘ بھی کہہ سکتے ہیں ۔جس ہوٹل میں ہماری بکنگ تھی وہ ساحلِ سمندر سے دس منٹ کی واک پر تھا اور یہی اُس کی واحد خصوصیت تھی، بکنگ کلرک نے ہمیں جو کمرہ دیا اُس میں یا تو ہم سما سکتے تھے یا ہمارا سامان۔ ویسے بھی برادرم اجمل شاہ دین ،جو ایک شاندار ہمسفر ہیں ، تین سوٹ کیس ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ میں نے لاہور میں اُن سے پوچھا تھا کہ اِن سوٹ کیسوں میں کیا ہے تو انہوں نے گردن اکڑا کر جواب دیا تھاکہ اِن میں تھری پیس سوٹ، جیکٹ اور جوتوں سمیت ہر وہ چیز ہے جس کی سفر میں ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ میں نے عرض کی حضور والا اسپین کے جس شہر میں ہم جا رہے ہیں وہاں تو پچھلے ایک سو سال میں کسی نے سوٹ نہیں پہنا اور رہی بات جیکٹ کی تو ایبیزا میں اگر آپ نے جیکٹ پہنی تو لوگ آپ کو ولی اللہ سمجھیں گے ۔اِس بات کے جواب میں انہوں نے ہمیشہ کی طرح مجھ پر وہی الزام لگایا کہ میں ہر کام میں کیڑے ہی نکالتا ہوں، بات چوں کہ سچی تھی اِس لئے میں چُپ ہوگیا۔کمرا دیکھ کر ہمیں شدید مایوسی ہوئی،بکنگ کلرک سے رابطہ کیا تو اُس نے مخصوص یورپی انداز میں کندھے اچکا کر کہاکہ وہ محض ایک ملازم ہے اور کچھ نہیں کرسکتا ۔ہم نے یہ کمرہ چوں کہ بکنگ ڈاٹ کام کے توسط سے لیا تھا تو اُن سے رابطہ کیا اور ہوٹل کی خرابیوں کی پوری فہرست انہیں گنوا دی ۔ اگلی صبح ہوٹل کی منیجر سے ملاقات ہوئی، یہ پچاس برس کی ایک سخت گیر عورت تھی، بکنگ ڈاٹ کام پر شکایت کی وجہ سے اُس کا موڈ سخت خراب تھا ، ہمیں دیکھ کر پہلے تو اُ س نے کسی قسم کی مدد کرنے سے انکار کردیا ، پھر میں نے اُس نیک بی بی کو سمجھایا کہ کیوں ایک کمرے کے پیچھے اپنی عاقبت خراب کرتی ہو، یہ دنیا فانی ہے، خالی ہاتھ آئے تھے خالی ہاتھ جائیں گے ، میں تمہارا ماتھا دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ تم ابھی غیر شادی شدہ ہو اور حال ہی میں تمہارا اپنے بوائے فرینڈ سے بریک اَپ ہوا ہے ۔ یہ سُن کر وہ نیک پروین سکتے میں آگئی ، اُس نے فوراً اپنے کلرک کوا سپینش میں کچھ کہا اور پھر خودمیرے ہاتھ چومنے کے لئے آگے بڑھی مگر میں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہماری فقہ میں ہاتھ چومنے کی اجازت نہیں۔ نہ جانے اسے بات سمجھ آئی یا نہیں ، ہمیں بہرحال ایک دوسرا کمرہ دے دیا گیا جو اُس ہوٹل کے لحاظ سے پریزیڈنشل سویٹ ہی تھا۔

ایبیزا میں خواتین لباس پہننے کو اچھا نہیں سمجھتیں ، ویسے تو گرمیوں میں یورپ کی خواتین لباس کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی لبرل ہوجاتی ہیں مگر ایبیزا تو اِس معاملے میں دو ہاتھ اور آگے ہے ۔یہاں جو عورت آپ کو مکمل قمیض پہنے نظر آئے تو سمجھیں کہ ایبیزا کے لحاظ سے اُس نے شٹل کاک برقع پہنا ہوا ہے۔ایبیزا کچھ کچھ وینس سے ملتا جلتا ہے ، یہاں بھی شہر کے ایک کنا رے سے دوسرے کنارے تک جانے کے لئےکشتی لی جا سکتی ہے ، شام کو ہم نے اِس کشتی کا ٹکٹ لیا جو ہمیں بیس منٹ میں ایبیزا ٹاؤن لے گئی۔ یہ جگہ شہر کا مرکز ہے ، یہاں سمندر کے کنارے لا تعداد کیفے، ریستوران اور کافی شاپس ہیں ۔ اِن کے پیچھے چھوٹی چھوٹی پتھریلی گلیاں ہیں ۔ اِن گلیوں میں بھی کھانے پینے کی دکانیں ہیں ، یہ گلیاں کہیں کہیں اندرونِ شہر کی طرح تنگ ہوجاتی ہیں مگر لوگوں نے انہیں بے حد خوبصورت بنا رکھا ہے ، کہیں پر بھی بے ترتیبی نہیں ۔اِن گلیوں میں دکانیں بھی ہیں اور کیفے بھی ، آپ یہاں صرف واک کرکے جا سکتے ہیں، ماحول ایسا رومانوی ہےکہ بندہ کئی گھنٹے بھی پھرتا رہے تو بھی دل نہیں بھرتا ۔یورپ کے شہر وں میں عموماً ویک اینڈ پر رونق ہوتی ہے ، ایبیزا مگر ایک استثنیٰ ہے ۔ اِس وقت رات کے دو بجے ہیں ، منگل کی صبح شروع ہو چکی ہے مگر حال یہ ہے کہ کھوے سے کھواچھل رہا ہے ،نائٹ کلب، شراب خانے ، ریستوران اور کیفے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں ۔ ایبیزا کے نائٹ کلب پوری دنیا میں مشہور ہیں،اِن کی مانگ کا اندازہ اِس بات سے لگا لیں کہ اِن کلبوں میں خواتین سے بھی داخلہ فیس لی جاتی ہےجو چالیس سے ستّر یورو تک ہے، باقی دنیا میں اِس کا رواج کم ہے ، اکثر کلب خواتین کو مفت داخلہ دیتے ہیں ۔دنیا کے بہت کم شہر ایسے ہیں جو اپنی الگ انفرادیت رکھتے ہیں ،جیسے لاس ویگاس اور وینس۔ اب میں نے ایبیزا کو بھی اسی فہرست میں شامل کر لیا ہے ، اِس چھوٹے سے جزیرے کی دنیا ہی الگ ہے۔ ایبیزا کےسمندر کا پانی گہرے نیلے رنگ کا ہے، ساحل سمندر پر کوڑے کے ڈھیر نہیں ہیں ، شہری انتظامیہ کی گاڑی ساحل سے کچرا اٹھانے کے لئے چکر لگاتی رہتی ہے ۔سمندر میں نکل کر ذرا سا آگے جائیں تو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں آپ کے راستے میں آجاتی ہیں، سمند ر کا پانی اِن پہاڑیوں سے ٹکرا کر ایسا دلفریب نظارہ پیدا کرتا ہے کہ بندہ مبہوت ہوجاتاہے۔ایبیزا کی خاص بات وہ دعوتیں ہیں جو بحری کشتیوں میں برپا کی جاتی ہیں ، انہیں Boat Parties کہا جاتا ہے ،یہاں درجنوں کمپنیاں سیاحوں کو سیر کروانے اور اُن کےلئے بوٹ پارٹیز کا اہتمام کرنے پر مامور ہیں ، اِن کی معیشت اسی سیاحت پر کھڑی ہے،یہ چھوٹا سا جزیرہ روزانہ کروڑوں یوروکماتا ہے ۔ ایسے کئی شہر ہمارے ملک میں بھی ہیں مگر ہم وہاں سے بد نامی ہی کماتے ہیں ۔کسی شہر سے مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں تو کہیں لوگ بس سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھ کر گولی مار دیتے ہیں ۔ ایسے شہروں کے ساحل چاہے کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں اور اُن کے سمندر کا رنگ کتنا ہی گہرا نیلا کیوں نہ ، وہاں بین الاقوامی سیاح تو کیا مقامی سیاح بھی نہیں جاتا۔

اِس شہرِ خوباں میں تین دن گزارنے کے بعد ہماری اگلی منزل بارسلونا ہے، بے شک ایبیزا حسیناؤں کا شہر ہے مگر ہمارا دل لاہور میں ہی اٹکا ہے۔ جان اور جاناں دونوں لاہور میں ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم