دہائیاں بیت گئیں امریکہ آئے ہوئے مگر ہم پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسلۂ آج بھی حلال اور حرام کے درمیان اٹکا ہوا ہے اور وہ بھیصرف کھانے پینے کی حد تک باقی کچھ بھی کرلیں سب حلال ہے ۔ بینک اکاؤنٹ لازمی کھولنا پڑتا ہے ، کریڈٹ کارڈز کے بغیر آپ زیروہیں ، گھر فنانس کرانا پڑتا ہے ، گاڑی بھی فنانس پر ہی لیتے ہیں ، کاروبار کرنا ہے تو اس کے لئے لون یعنی قرضہ لیتے ہیں ،
گھر کی عورتیں بغیر پردے کے ، شادی بیاہ یا کوئ بھی تقریب بغیر ناچ گانے کے ادھوری مگر اس سے کیا ہوتا ہے ؟ یہ سب تو جائز ہے، سُود کوئ حرام نہیں ہے ، بے حیائ ، بغض ، رشوت ، جھوٹ ، ریا کاری سب جائز ہے ماسوائے کون کیا کھارہا ہے بس اس پر ہمارینظر ہونی چاہئے چاہے ہم خود کچھ بھی کھارہے ہوں !
نوجوانی کے دونوں میں ہمارا ایک دوست تھا اچانک اس پر مُلائیت سوار ہوگئ اور ہمیں تبلیغ کرنے لگا اور صراطِ مستقیم پر چلنے کیتلقین بھی مگر تھا وہ پُرانا چرسی ، مگر اب سر پر ٹوپی اور نمازی ہوگیا تھا ، ایک دن ہم دوستوں نے اسے چرس پیتے رنگے ہاتھوںپکڑ لیا اور اس کی خوب کلاس لی کہ ہمیں تو درس دیتے ہو اور خود کیا کررہے ہو تو جواب دیا کہ چرس تو مکروہ ہے حرام نہیں ہے ! خیر ہم بھی بھول گئے اور باقی دوست بھی مگر اس کا درس ختم نہیں ہوا ، کچھ ہی عرصہ بعد مخبر سے خبر ملی کہ فلاں جگہ ہرجام لُنڈھائے جارہے ہیں اور وہاں نئے نویلے مولانا صاحب بھی موجود ہیں اور خوب مست ہورہے ہیں ، ہم سب نے پاکستان پولیس کیطرح جائے وقوعہ پر چھاپہ مارا تو وہاں تو باقاعدہ میکدہ لگا ہوا تھا اور وہ صاحب جام سے آخری چُسکیاں لے رہے تھے ، ہم نے دھاوابولا اور اسکی وہیں دُھنائ لگانی شروع کردی مگر ان مُلّاؤں کے پاس دلائل بہت ہوتے ہیں ، جب ہم نے پوچھا کہ چرس تو مکروہ ہے اوریہ شراب ؟ تو فرمایا ! دین اپنی جگہ دُنیا اپنی جگہ ۔ لو کرلو گل ؟
تو یہی حال یہاں مقیم نیم مُلّا پاکستانیوں کا بھی ہے ، دلائل دینے میں پوری مہارت رکھتے ہیں ۔
امریکہ آتے تو پی سی ، لاٹری اور دیگر طریقوں سے ہیں یا وزٹ ویزہ لیکر اور پھر یہاں غیر قانونی قیام کرلیتے ہیں ، گرین کارڈ کے لئےکسی کالی ، گوری ، چپٹی ، ہندو سے شادی کرلیتے ہیں اور بچے بھی پیدا کرلیتے ہیں مگر گرین کارڈ ملتے ہی یا سٹیزن ہوتے ہی طلاقاور اولاد سے لاتعلقی کا اعلان کردیتے ہیں مگر کھانا حلال ہے ، چاہے وہ نمک ہو یا شکر ، پانی ہو یا آلو ، پھل ہوں یا سبزیاں ان سبمیں کیڑے نکالنے ضروری ہوتے ہیں ، خود میکڈونلڈ اور برگر کنگ سے تناول فرمارہے ہوتے ہیں کوئ دیکھ لے تو کہتے ہیں کہ “ ہم تویہاں سے صرف فش کھاتے ہیں “
بھائ آپ کچھ بھی کھاؤ ہمیں اس کوئ غرض نہیں اور برائے مہربانی آپ بھی کوئ غرض نہ رکھیں ،
یہاں آکر ایک بات تو بہت اچھی طرح سمجھ آگئ کہ ڈالرز میں کھیلنا ہے تو مسجد قائم کرلو اور بس آپ کی سات پُشتیں شاد و آباد ! بنگالیوں ، عربوں ، بھارتیوں کی مسجدیں الگ ، پاکستانیوں کی مسجدیں الگ ، ہر مسجد کی کمیٹی اور اس کمیٹی کا ممبر بننے کےلئے دست و گریباں ۔
بیس بائیس سال پہلے میں ایک نئے ٹاؤن میں شفٹ ہوا ، حلال گوشت کہاں ملتا ہے اسکی تلاش ہوئ ، کافی دونوں بعد ایک اسٹور کاپتہ چلا کہ فلاں اسٹور پر حلال گوشت ملتا ہے ، وہاں پہنچا تو وہ ایک ساؤتھ انڈین عیسائ کا اسٹور تھا اور اس میں ایک پاکستانیبھائ گوشت کا کام کررہے تھے ، خیر میں نے بکرے کا گوشت لیا تو کافی مہنگا لگا ، عموماً میں کبھی قیمتوں کی شکائت نہیں کرتا نہمول بھاؤ کرتا ہوں مگر نہ جانے کیوں میں نے ان صاحب سے کہہ دیا کہ آپ نے گوشت کافی مہنگا دیا ہے ، اور جگہوں پر ریٹ کافیکم ہیں بس اتنا کہنا تھا وہ صاحب میری جان کو آگئے اور کہنے لگیں آئیں میں آپ کو رسیدیں دکھاتا ہوں ، ہمیں صرف دس سینٹ کافائدہ ہوتا ہے ایک پاؤنڈ گوشت پر تو میں نے کہا کہ نہیں بھائ مجھے نہیں دیکھنی رسیدیں تو وہ کلمہ پڑھنے لگے اور قسمیں کھانےلگے تو میں نے کہا کہ بھائ مجھ سے غلطی ہوگئ مجھے معاف کردیں ، بس مجھے جو لگا وہ آپ سے کہدیا تو اس پر ان صاحب نےفرمایا کہ سب حرام اور جھٹکے کا گوشت بیچتے ہیں میں حلال دے رہا ہوں اس بات پر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے کہا کہ بس آپپوری اسٹیٹ میں اکیلے مسلمان ہو اور باقی سارے کافر ہیں ، حلال سلاٹر ہاؤس کیا صرف آپ کے لئے جانور زبح کرتے ہیں ؟ ایسا نہکریں اور ایسا نہ بولیں ،
قصہ مختصر یہ کہ اپنے چھوٹے سے کاروبار کے لئے دوسروں پر تہمت اور الزام لگادو بس ۔ اور خود ناجائز منافع خوری کرتے رہو وہسب جائز ہے ،
ہم پاکستانی اور انڈین مسلمانوں کو تیس ڈالر والا ہرا سائن نظر آنا چاہئے جس پر جلی حُرفوں میں لکھا ہوا ہو “ سو فیصد زبیحہحلال “ بس بہت ہے ، صاحبِ دوکان جمعہ کی نماز مسجد میں با جماعت ادا کرتے ہیں تو بس وہ تو سو فیصد کیا ایک ہزار فیصد ہرکام شرعی کررہے ہیں ، گھر میں بیوی کو گالیاں ، اولاد سے لاپرواہی اور بوڑھے والدین سے بے بی سٹنگ کا کام لے رہے ہوں اس سےکوئ غرض نہیں ۔
جو ملک آپ کے بچوں کو مفت تعلم کی سہولت دے رہا ہو ، مفت اسکول کی ٹرانسپورٹ فراہم کررہا ہو ، کورونا کے بعد مفت اسکولسپلائز تک فراہم کررہا ہو ، بُرے حالات میں جیسا کہ کورونا کے بعد ہوا ، آپ کو اور آپ کے خاندان کے ہر فرد کو پیسے دے رہا ہو چاہےآپ کی مالی حیثیت کچھ بھی ہو ، آپ کو میڈیکل اور سوشل سیکورٹی فراہم کررہا ہو مگر جب ٹیکس دینے کی بات آتی ہے چاہے وہانفرادی ٹیکس ہو یا کاروباری تو اس میں گھپلے بازی اور کزابیت سے کام لیا جاتا ہے ، کاروباری حضرات چاہتے ہیں کہ جھوٹ بول کرکم سے کم ٹیکس دیا جائے اور نوکری کرنے والے لوگ سال کے آخر میں جب ٹیکس فائل کرتے ہیں تو جھوٹ لکھ کر چاہتے ہیں کہ زیادہسے زیادہ ٹیکس ریٹرن حاصل ہو اور وہی لوگ دوسروں پر نظر رکھتے ہیں کہ یہ کھا کیا رہا ہے اور فروخت کیا کررہا ہے ؟ اپنے گریبانمیں نہیں جھانکتے !
کاروباری حضرات اپنے لئے انتہا سے زیادہ منافع خوری کو جائز سمجھتے ہیں مگر دوسروں کے کاروبار کو اپنی زبان سے نقصانپہنچانا چاہتے ہیں کہ فلاں دوکاندار زبیحہ نہیں دے رہا یا فلاں ہوٹل والا حلال گوشت نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ ، کیا ناجائز منافع خوریجائز ہے ؟
اس ہی طرح ہر دوسرا پاکستانی اور ہندوستانی ناجائز طریقے سے فوڈ اسٹیمپس ( ای بی ٹی ) حاصل کرلیتا ہے اور اس کا بھیناجائز استعمال کرتا ہے ایک تو پہلے ہی ناجائز حاصل کیا اوپر سے ناجائز استعمال ، فوڈ اسٹیمپس پر صرف گروسری لے سکتے ہیںمگر اپنے جاننے والے دوکانداروں سے ہر چیز لے رہے ہوتے ہیں حتیٰ کہ سگریٹس تک ، اور بہت سے پکّے مسلمان اپنی ہی طرح کے پکّےمسلمان دوکاندار سے اس سے کیش بھی لے لیتے ہیں اور دوکاندار اپنا منافع رکھ کر کیش دے بھی دیتا ہے مگر ان سب کو دوسروںکے حلال حرام کی سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے ۔
اس طرح کی باتیں کرنے سے پہلے ، الزام تراشی ، بہتان لگانے سے پہلے ایک دفع یہ ضرور سوچ لیا کریں کہ ہم آئے کہاں سے ہیں ؟جہاں گدھے ، کُتّے کا گوشت بیچا اور کھلایا جارہا ہو ، بچوں کا دودھ بھی ملاوٹ شُدہ ہو ، جان بچانے والے ادویات تک جعلی ہوں ،مری ہوئ مرغیاں پولٹری فارمز پر بیچی جاتی ہوں ، پھلوں اور سبزیوں کو گٹر کے پانی سے دھویا جاتا ہو ، پھلوں پر کیمیکل والا زہریلارنگ کیا جاتا ہو ، پھلوں میں شکرین کے انجکش لگائے جاتے ہوں ، گوشت میں پانی بھرے انجکشنز لگائے جاتے ہوں ، قربانی کےجانوروں میں بھی دھوکا کیا جاتا ہو اور آٹھ دانت کے جانور کے دانت گِھسوائے اور نکالے جاتے ہوں اور انہیں دو دانت کا بناکر بیچاجاتا ہو ۔ انہیں یہ باتیں زیب نہیں دیتیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے ہی گوشت یا دوسری خورد و نوش کی اشیاء لیکر تیسرےمسلمان کو فروخت کررہا ہو اور اس پر انگلیاں اٹھائیں ؟ کہ اس پر شریعہ بورڈ کی مہر نہیں ہے تو اس پر حفصہ والوں کو سرٹیفیکٹنہیں ہے یا یہ شعیہ ہے یہ وہابی ہے وغیرہ ۔ اس پر حلال تو لکھا ہے مگر ہم نہیں مانتے ، یہ زبیحہ صحیح نہیں ہے تو یہ صحیح ہے !
تحقیق ضرور کریں مگر بغیر تحقیق کئے دوسروں پر الزام نہ لگائیں یا دوسروں کے کاروبار کو نقصان نہ پہنچائیں، کسی کی زات کونقصان نہ پہنچائیں ، اعتبار کرنا سیکھیں ۔ حلال اور حرام صرف گوشت کھانے کی حد تک محدود نہیں ہے حلال اور حرام کا دائرہبہت وسیع ہے ، ہمیں اپنے آپ کو دیکھنا ہوگا کہ ہم کون سا فعل حلال کررہے ہیں اور کون سا حرام ؟ حقوق العباد کی پاسداری کررہےہیں کہ نہیں ؟
میرے لکھنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ جو ملے آنکھ بند کرکے کھالیں مگر اپنی زات تک رہیں ۔ شُکریہ