231

بے بسی کی باتیں

صبح سویرے موالی کا فون آیا۔ دوست ہے میرا۔ لگتا ملنگ ہے، مگر ٹھیک ٹھاک پڑھا لکھا ہے فلوریڈا یونیورسٹی سے مواصلات یعنی کمیونی کیشن میں پی ایچ ڈی ہے۔ ایک بین الاقوامی فرم کیلئے پاکستان میں کام کرتا ہے۔ اردو، سندھی اور انگریزی اخباروں میں خواتین اور بچوں کے ساتھ ہونےوالے جرائم کی شائع خبریں تراش کر، ان پر رائے زنی اور تبصرہ کرنے کے بعد نیو یارک میں واقع اپنی فرم کے ہیڈ آفس کو بھیجتا رہتا ہے۔ ایڈیٹنگ کے بعد ہر چھ ماہ کے وقفہ سے موالی کے اصلی نام سے فرم کی طرف سے ایک عدد کتاب شائع ہوتی رہتی ہے۔ اب تک اس کی چھبیس کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ کسی سے میل ملاپ نہیں رکھتا ۔ تشہیر سے دور بھاگتا ہے۔ اس لئےپاکستان میں اسے کوئی نہ جانتا ہے۔ نہ پہچانتا ہے،اپنے ہی وطن میں وہ اجنبی ہے۔ میرا بچپن کا دوست ہے۔ ہم پرانے کراچی کے رامسوامی علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ ایک ہی اسکول، ایک ہی کالج اور ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھ کر جواں ہوئے تھے۔ مجھ پر ایک طرح سے نظر رکھتا ہے۔ اکثر کہتا رہتا ہے : یار، تو کب سدھرے گا۔ کبھی تو سچ بولا کر۔

پچھلے ہفتہ کا کالم پڑھ کر موالی نے مجھے فون کیا۔ کہا۔ ’’تجھے اخباروں میں لکھتے ہوئے ایک عمر گزر گئی ہے۔ تو اب تک خبرکی مانگ، ڈیمانڈ سے نابلد ہے‘‘۔

میں نے کچھ پوچھنا چاہا تو ، مجھے اچھی خاصی ڈانٹ پلا دی۔ ’’کچھ مت بول۔ چپ رہ کر میری بات سن۔ کتا جب آدمی کو کاٹتا ہے تو یہ بات خبر نہیں بنتی۔ خبر تب بنتی ہے جب ایک آدمی کتے کو کاٹ لیتا ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد ذوالفقار بھٹو نے رکھا تھااور اسٹیل ملز کا افتتاح جنرل ضیاءالحق نے کیا تھا۔ تمہاری اس بات میں خبر کہاں ہے؟ یہ تو تم لوگوں کو اطلاع دے رہے ہو خبر تب بنتی اگر اسٹیل ملز کی مخلص انتظامیہ نے سنگ بنیاد کے کتبہ سے ذوالفقار علی بھٹو کا نام حذف کر دیا ہوتا، اور اس کی جگہ وزیر اعظم نا معلوم کندہ کروا دیا ہوتا۔ تب یہ خبر بنتی ۔‘‘موالی کی بات سن کر مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ پاکستان اسٹیل ملز کا ذکر میں نے یہ بتانے کیلئے نہیں کیا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد کس نے رکھا تھا اور اسٹیل ملز کا افتتاح کس نے کیا تھا۔ میں آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ اسٹیل ملز کا افتتاح بھی ہوا تھا۔ اسٹیل ملز چل پڑی تھی۔ ملک کی ضروریات کی ساٹھ فیصد لوہے کے آئٹمز اسٹیل ملز بناتی تھی۔ چالیس فی صد لوہے کی آئٹمز امپورٹ ہوتی تھیں۔ پھر کیا ہوا؟ اسٹیل ملز کی پیداوار کم کیسے ہونے لگی؟ ہماری دیسی زبانوں کی کہاوت بے معنی لگتی ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کو دشمن کی نظر لگ گئی تھی۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے، تب زرداری کا دور دور تک نام و نشاں نہیں تھا۔ ملک میں لوہے کی آئٹمز کی ساٹھ فیصد ضروریات پوری کرنےوالی اسٹیل ملز کو کیا ہوا؟ اس کی پیداوار گھٹنے کیوں لگی؟ ان دنوں ملک میں تعمیراتی کام زوروں پر تھا۔ بلڈرز کو لوہے کے سریوں کی سخت ضرورت تھی۔ اسٹیل ملز کی پیداوار بتدریج کم ہوتی جا رہی تھی۔ آج تک ہمیں کوئی نہیں بتاتا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو ناکام کرنے کے درپے کون تھا، یا کون تھے؟ پاکستان اسٹیل ملز کی کارکردگی زوال پذیر ہوتی گئی، اور گردونواح میں چھوٹی چھوٹی اسٹیل ملز لگنے لگیں۔ جیسے جیسے پاکستان اسٹیل ملز تنزلی کا شکار ہوتی گئی ویسے ویسے چھوٹی موٹی اسٹیل ملز عالم وجود میں آتی گئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک میں دس بارہ اسٹیل ملز پرائیوٹ پارٹیز چلانے لگیں۔

پاکستان اسٹیل ملز کی پیداوار گھٹتی گئی پرائیویٹ ملز کی پیداوار بڑھتی گئی۔ آخر کار دو ہزار سولہ کے لگ بھگ State of the art یعنی لاجواب پاکستان اسٹیل ملز میں پیداوار تقریباً ٹھپ ہو گئی۔ کسی نے کسی قسم کا نوٹس تک نہیں لیا۔ کسی قسم کی کوئی تفتیش ، کوئی پوچھ گچھ نہ ہوئی۔ سرکاری کارندوں کا رویہ کچھ اس قسم کا تھا۔ جیسے کہہ رہے ہوں، خس کم جہاں پاک۔

پاکستان اسٹیل ملز کے دیوالیہ ہو جانے کے بعد پرائیویٹ اسٹیل ملز کی چاندی ہو گئی۔ پرائیویٹ اسٹیل ملزنے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔ ان کی آمدنی میں ہوشربا نفع ہوا۔ لگنے والوں کو ایسا لگا کہ اگر پاکستان اسٹیل ملز مل کابھٹہ نہ بیٹھتا، تو پھر پرائیویٹ اسٹیل ملز اس قدر ترقی نہ کرتیں۔ آپ فقیر کی بات سمجھ رہے ہیں نا؟ اس ماجرے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے آپ کا پی ایچ ڈی ہونا ضروری نہیں ہے۔

اچھا ہے موالی نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ پہلے پچیس برسوں کے دوران کسی وزیر اعظم کو اپنا Tenure یعنی مدت، جو کہ چار پانچ برس کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ پوری کیوں نہیں کرنے دی گئی؟ موالی نے ،اچھا ہے کہ یہ نہیں پوچھا ’’بغیر کسی آئین کے ملک پہلے پچیس برس کیسے چل رہا تھا؟‘‘ واللہ اعلم بالصواب۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم