ڈائمنڈ جوبلی، کیا کھویا کیا پایا؟

دنیا بھر میں پاکستانیوں نے 14اگست کو وطن عزیز کی ڈائمنڈ جوبلی دھوم دھام سے منائی،دنیا کی ہر زندہ قوم ایسے اہم قومی مواقع پر اپنا محاسبہ کرتی ہے، ماضی کی غلطیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور مستقبل کیلئےمنصوبہ بندی کرتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جشن آزادی مناتے ہوئے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ان 75سالوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ میری نظر میں قائداعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کی کامیابی جدیددنیا کی تاریخ کا انوکھا اور منفرد کارنامہ ہے،تاہم پاکستان بننے کے ایک سال بعد قائد اعظم کی وفات بہت بڑاسانحہ تھی، بانی پاکستان کے دنیا سے جانے کے بعد جس طرح سے پاکستان کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوا،وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے، انگریز سامراج سے آزادی کے بعد جب پاکستان بنا تو وہ دو حصوں پر مشتمل تھا ،ہم سے ایک ہزار میل دور مشرقی پاکستان کی آبادی 55فیصد تھی لیکن حکومتی امور اور پالیسی سازی کے عمل میں مغربی پاکستان حاوی تھا ، ہماری ناعاقبت اندیش پالیسیوں کی وجہ سے صرف 25سال میں ہمارامشرقی حصہ جدا ہوگیا۔آج بنگلہ دیش کو ہم سے بچھڑے ہوئے پچاس سال ہوگئے ہیں اور ان پانچ دہائیوں میں بنگلہ دیش ہم سے ہر شعبہ زندگی میں بہت آگے نکل چکا ہے، بنگلہ دیش کی کرنسی پاکستانی روپے سے مضبوط ہے، جہاں کبھی طوفانی بارشیں تباہی مچایا کرتی تھیں اور دنیا بھر سے امداد مانگی جاتی تھی، آج انہوں نے ڈیم بناکرسیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پالیا ہے۔ پاکستان کے شروع کے دس سال میںتو اتنا زیادہ سیاسی عدمِ استحکام کا سامنا رہا کہ پڑوسی ملک بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے طنز کیا کہ میںجتنی دیر میںکپڑے بدلتا ہوں ، وہاں پاکستان میں وزیر اعظم بدل جاتا ہے۔ آج بھی یہ عالمی اعزاز پاکستان کو حاصل ہے کہ 75برسوں میں ایک بھی منتخب عوامی وزیراعظم اپنی مدتِ حکومت پوری نہیں کرسکا۔سات دہائیوں پر مشتمل ہماری قومی تاریخ میں ہر حکومت نے اپنا وقت اچھا گزارنے کرنے کے لئے غیر ملکی قرضوں کا حصول ہی اپنی کامیابی سمجھا، ہر حکمراں نے ملک کو قرضوں کی بھاری زنجیروں میں جکڑ دیا، لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس کو واپس کیسے کرنا ہے، آج عوام کومہنگی بجلی اور پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑ رہاہے، بیرونی قرضوں نے نہ صرف ہماری قومی خودمختاری داؤ پر لگا دی ہے بلکہ ہم ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ہر دس سال بعد مردم شماری کرانا ایک آئینی تقاضا ہے لیکن ہم یہاں بھی ڈنڈی مارتے ہیں، دوسری طرف بنگلہ دیش باقاعدگی سے مردم شماری کرواکر اپنے وسائل کے درست استعمال کو یقینی بناتا ہے، بنگلہ دیش کی آبادی جو 1947ء میں ہم سے زیادہ تھی، آج پاپولیشن کنٹرول کی وجہ سے پاکستان سے کم ہے ۔ پاکستان کی روایتی سیاست میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے بعدعمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف وہ سیاسی جماعت بنکراُبھری جس نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، میں نے پہلی ملاقات میں خان صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاکستان حقیقی انداز میں ریاست مدینہ بنے تو آپ کوعام معافی کا اعلان کرنا چاہئے، میں نے انہیں فتح مکہ کے واقعات سنائے کہ پیغمبر اسلامﷺ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کر دیاتھا ۔جدید تاریخ کے عظیم رہنماء نیلسن مینڈیلاکی مثال دی کہ کس طرح سے جنوبی افریقہ میں سفید سامراج کے خلاف اپنی تحریک کی کامیابی کیلئے صبر وتحمل کا دامن نہیں چھوڑااورحکومت میں آنے کے بعد عام معافی کا اعلان کردیا، پاکستان کو آگے لے جانے کیلئے پی ٹی آئی کو بھی اعلیٰ ظرفی کامظاہرہ کرتے ہوئے اسی راستے پر چلنا چاہئے ۔ افسوس، پی ٹی آئی کےدور میںبہتان طرازی کی منفی سیاست کو پروان چڑھایا گیا۔ تاہم میں کٹھن حالات سے کبھی مایوس نہیں ہوتا اور آج بھی پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے پُرامید ہوں،میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر ہر سیاستدان کو اپنی سیاسی جماعت سے وابستگی سے بالاتر ہوکرعہد کرنا چاہئے کہ وہ اپنی سیاست کا محور عوام کی خدمت کو بنائیں گے، ہمیں کسی بھی حالت میں سچ انصاف اور اصولوں پر کمپرومائز نہیں کرنا چاہئے ،ہمیں قائداعظم کے وژن کو اپنانا چاہئے، ہمیں ملک و قوم کے بہترین مفاد کی خاطر اپنی انا کی قربانی دینی چاہئے، ہم میں نقصان برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے،جھوٹ اور ناانصافی کاساتھ کبھی نہیں دینا چاہئے۔ ہمیں اپنی 75سالہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم آج سے پچیس سال بعد پاکستان کی صد سالہ جوبلی پر قرضوں میں جکڑا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں یا اقتصادی طور پر مضبوط اور توانا پاکستان۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں وزیراعظم میاں شہباز شریف کے میثاقِ معیشت کی پیشکش کو قبول کریں، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں اور ہماری سیاست ہے۔

بشکریہ روزنامہ آج