98

کیا تصادم سے بچنا ممکن ہوسکے گا؟

پاکستان میں جاری سیاسی فریقین یا طاقت کے مراکز میں جاری سیاسی محاذ آرائی ، بداعتمادی کا ماحول اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرنے کے عمل نے ملکی سیاست کو ایک بڑے بحران کی کیفیت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔

یہ محض ایک سیاسی بحران نہیں ہے جو سیاسی فریقین کے درمیان موجود ہے بلکہ اس کی حیثیت ریاستی بحران سے بھی جڑی نظر آتی ہے۔ کیونکہ سیاسی فریقین میں جو تناؤ ہے اس کے ذمے دار وہ خود ہیں۔ اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ سب فریقین مل بیٹھیں اور کوئی ایسی مشترکہ حکمت عملی کو ترتیب دیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔

حالیہ دنوں میں بحران کے حل کے تناظر میں بارش کا ایک پہلا قطرہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پھینکا ہے۔ ان کے بقول حالات کی سنگینی ظاہر کرتی ہے کہ یہ بحران کسی ایک فریق نے حل نہیں کرنا اور ہمیں قومی سطح پر ایک بڑے اتفاق رائے پر مبنی سیاست درکار ہے۔ اگرچہ ان کے پاس ایک آئینی عہدہ ہے مگر وہ ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری سیاسی ٹکراؤ کی کیفیت کو کم کرکے حالات کی درستگی کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر عارف علوی کے بقول اگر دونوں سیاسی فریقین اتفاق کرلیں تو وہ ان معاملات میں پہل کرنے کے لیے تیار ہیں۔یہ جو پچھلے دنوں ہم نے سیاسی محاذ پر ایک لفظ ’’ نرم مداخلت ‘‘ کا سنا تھا تو ڈاکٹر عارف علوی کی پیش کش کو اسی نرم مداخلت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔کیونکہ ایک بات کافی حد تک طے ہے کہ جب تک کوئی تیسرا فریق حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک درمیانی راستہ یا پل کا کردار ادا نہیں کرے گا ، معاملات نہیں سدھر سکیں گے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے پیش کئی گئی یہ تجویز ایک بڑے سیاسی ایجنڈے کا سبب بن سکے گی اور کیا دونوں سیاسی فریقین صدرکی اس پیش کش کا فائدہ اٹھا کر سیاسی معاملات کے حل میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہوسکیں گے، کیونکہ یہ کام آسان نہیں مگر ناممکن بھی نہیں ۔اگرچہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق براہ راست پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ ان کو عمران خان کا بہت قریبی ساتھی بھی سمجھا جاتا ہے ۔ مگر وہ صدر مملکت بھی ہیں اور اگر وہ ایسی پہل کریں تو موجودہ مسائل کے حل میں ایک قدم آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

کیونکہ کسی نے تو پہل کرنی ہے اور اگر یہ پہل صدر مملکت کی جانب سے ہوتی ہے تو اس کا ہر سطح پر خیر مقدم ہونا چاہیے۔ لیکن سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کیا صدر مملکت کی اس پہل کو ہماری اسٹیبلیشمنٹ کی بھی حمایت حاصل ہوگی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً بات آگے بڑھ سکتی ہے ۔ اس وقت جو قومی بحران ہے اس میں سیاسی فریقین کے درمیان اعتماد سازی کا ماحول کا پیدا ہونا اور ایک دوسرے کے خلاف سیاسی کشیدگی کا خاتمہ اہم پہلو ہے ۔

سازگار ماحول کو یقینی بنانے اور ایک دوسرے پر اعتماد سازی کی بحالی یا سیاسی تلخیوں کے خاتمہ کے لیے سب سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہونا ہوگا کہ ان کی جماعتوں کا کوئی فرد یا اہم قیادت ایک دوسرے کے خلاف ذاتیات پر مبنی الزام تراشی یا کردار کشی کی سیاست نہیں کرے گی ۔کیونکہ یہ جو سیاسی ماحول ہم دیکھ رہے ہیں۔

اس کشیدگی کے خاتمہ کے لیے منفی لہجوں کو ختم کرنا ہوگا اور یہ عمل سیاسی قیادت کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکے گا۔کیونکہ یہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت کو خوش کرنے کے لیے ہی ان کی اپنی جماعت کے لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن جاتے جو سیاسی ماحول کی تلخی کا سبب بنتے ہیں۔ جب ہم ایک دوسرے کے سیاسی وجود، مینڈیٹ اور اپنے اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتوں کی وجود کو تسلیم کریں گے تو بات چیت کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے ۔

کوشش یہ ہی ہونی چاہیے کہ سیاسی فریقین مل بیٹھیں اور ان کو واضح پیغام دیا جائے کہ مل بیٹھنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ مفاہمت کا راستہ کوئی بہت بڑے ایجنڈا کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں مختصر ایجنڈا جو سیاسی معاملات کو آگے بڑھاسکے اس تک ہی خود کو محدود رکھنا ہوگا ۔ نئے اور شفاف انتخابات کی تاریخ کا تعین ، انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی فعالیت ، نگران حکومت کا قیام، الیکڑانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سمیت انتخابی عمل میں جو بھی مسائل ہیں ان کو بنیاد بنا کر سیاسی فریقین آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔

بشکریہ ایکسپرس